سبھی نقوش غلط ، خال و خد ، بَلا کے خراب
مجھے وہ ٹھیک نہیں کر سکا ، بَنا کے خراب
مجھے پسند ہے ہر شے جو میرے جیسی ہو
سو اچھی چیز میں رکھ آتی ہوں ، اٹھا کے خراب
بس ایک بار ہی کافی ہے زندگی کہ خدا!
پھر اس جہان میں ہونا ہے کس کو آ کے خراب
تو اک چراغ جلا آؤ شب کی چوکھٹ پر
اگر مزاج نہیں لگ رہے ، ہوا کے خراب
ہر ایک کام مکمل توجہ چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبھی تو خود کو کیا ، خوب دل لگا کے ، خراب
تضادِ قول و عمل اور فریب لہجوں میں۔۔۔۔۔
یہ لوگ دیکھنے میں ہی تھے انتہا کے خراب
میں سب سے خوشنما پتھر تھی تجھ عمارت کا
سو تو نے خود کو کیا ہے ، مجھے ہٹا کے ، خراب
تمہارا دکھ ہے کہ تم بھی بنا دئیے گئے ہو
ہمارا کیا ہے کہ ہم لوگ تھے سدا کے خراب