ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لڑکی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ تفصیلی رپورٹ جی نیوز
(بشکریہ جیسمین محمد)
ٹوبہ ٹیک سنگھ ماریہ قتل کیس کے حوالے سے میں نے ایک دو بار لکھا کہ اس قتل کی “ماسٹر مائنڈ” سمیرا یعنی مقتولہ کی بھابھی ہے
کئی لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کیوں کہ ماریہ کو قتل تو اس کے بھائی نے کیا جو سمیرا کا دیور ہے تو کیا سمیرا نے دیور کو بھڑکایا وغیرہ وغیرہ…
آئیں! قدرے آسان الفاظ میں بات کرتے ہیں…
عبدالستار اوڈھ کے چار بچے (دو بیٹیاں اور دو بیٹے) ہیں. بیٹوں کے نام شہباز اوڈھ اور فیصل اوڈھ ہیں جب کہ بیٹیوں کے نام کوثر اور ماریہ ہیں…ایک بیٹا شہباز شادی شدہ ہے. جب کہ ایک بیٹی کوثر شادی شدہ ہے. فیصل اور ماریہ غیر شادی شدہ ہیں….
عبدالستار کی زوجہ گزشتہ برس رمضان المبارک میں وفات پا گئی.. عبدالستار خود معذور ہے؛ اس لیے اس کی دیکھ بھال اس کے دو غیر شادی بچے (فیصل اور ماریہ) کرتے ہیں جب کہ اس کے شادی شدہ بچے ( شہباز اور کوثر) اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں…
17 مارچ 2024 کو شہباز اپنے زوجہ سمیرا اور اپنی دو بچیوں کے ہمراہ اپنے والد عبد الستار کے گھر آیا… سمیرا اور بچیوں کو گھر چھوڑا اور خود گھر سے باہر چلا آیا… واپس آیا تو سمیرا نے اس کو ایک قیامت خیز خبر سنائی… سمیرا کے مطابق ماریہ کو عبدالستار اور فیصل جنسی تشدد کا نشانہ بناتے تھے… شہباز نے آؤ دیکھا نہ تاؤ… باپ اور بھائی پر سیدھا نشانہ سادھا اور انہیں دھمکایا کہ وہ صبح ہوتے ہی رشتہ داروں کو اکٹھا کرے گا اور ان کے سامنے ان کا پول کھول دے گا….
یہاں پر واقعات کی کڑی ٹوٹ جاتی ہے کیوں کہ یہ تو معلوم ہے کہ شہباز کے اس واویلے اور دھمکی کے بعد ماریہ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ معلوم نہیں ہو پایا کہ فیصل، شہباز، عبدالستار، سمیرا اور ماریہ کے درمیان کیا گفتگو ہوئی….
بہرحال ماریہ قریب المرگ ہے. فیصل اور عبدالستار کے پاس اس کو ٹھکانے لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے… ماریہ زندہ رہے تو ان کی بدنامی ہو گی… کیوں کہ وہ شاید خاموش رہے گی مگر شہباز اور اس کی زوجہ سمیرا خاموش نہیں رہیں گے…
بالآخر دونوں نے فیصلہ کیا کہ ماریہ کو موت کے گھاٹ اتار کر سارا معاملہ لپیٹ دیا جائے…
فیصل نے کمرِ ہمت کسی اور ماریہ کا گلا گھونٹنے لگا… ماریہ شدید تشدد کے باعث نیم مردہ تھی. اس لیے فیصل سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ زندہ تھی یا مردہ… بہرحال اس نے ماریہ کی سانسوں کی روانی سے اندازہ لگایا کہ وہ زندہ تھی… وہ اس وقت تک ماریہ کا گلا دباتا رہا جب تک کہ اس کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹ نہ گئی…. ماریہ نے صرف تین منٹ کے اندر اندر زندگی کی سرحد پار کی اور موت کی دنیا میں جا بسی….
اس دوران نہ ماریہ نے مزاحمت کر کے فیصل کو روکا اور نہ ہی اس کمرے میں موجود دیگر افراد نے فیصل کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنے موجودگی کا احساس دلایا…موت کا کیا ہی شاندار تماشا تھا… اور کیا ہی بہترین تماشائی تھے کہ بس دیکھتے ہی رہے…
شہباز نے ویڈیو بنائی… سمیرا نے برائے نام منتیں کیں… تماشا ختم ہوا… ماریہ مر گئی… عبدالستار، فیصل، شہباز اور سمیرا نے رونا پیٹنا شروع کیا… آس پڑوس کے لوگ متوجہ ہوئے. آئے. پوچھا. انہیں بتایا گیا کہ ماریہ بوجہ ہیضہء جان کی بازی ہار گئی…. سب نے لواحقین سے تعزیت کی. انہیں دلاسا دیا اور ماریہ کی تدفین کے انتظامات کرنے میں ان کی مدد کی…. ماریہ دفن گئی…عبدالستار اور فیصل رشتہ داروں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے بال بال بچ گئے…
واقعات کی کڑی پھر ٹوٹ جاتی ہے….معلوم نہیں ہو پایا کہ 18 مارچ سے 24 مارچ کے درمیان عبدالستار، فیصل، شہباز اور سمیرا کے درمیان کیا کھچڑی پکی…. مگر 24 مارچ کو ہانڈی پھوٹ گئی… شہباز اور سمیرا ایک وکیل کے پاس جا پہنچے. اس کو ویڈیو دکھائی اور مدد طلب کی… وکیل نے ویڈیو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کی…. ویڈیو وائرل ہوئی…. قانون حرکت میں آیا…سرکار کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی…. عبدالستار اور فیصل کو حراست میں لے لیا مگر شہباز اور سمیرا کو بھی شاملِ تفتیش کر لیا…..
شہباز اور سمیرا کا پلان ناکام ہو گیا کیوں کہ وہ پولیس کو یقین نہ دلا سکے کہ صرف فیصل اور عبدالستار ہی ماریہ کا مجرم ہیں. پولیس نے ان کو یہ کہہ کر دھر لیا کہ جائے وقوعہ پر ان کی ذمہ داری ویڈیو بنانا نہیں تھی بلکہ ان کا فرض بنتا تھا کہ وہ فیصل کو بزور روکتے اور ماریہ کی جان بچاتے….
یہاں بہت سے سوالات ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سمیرا نے حکمت عملی سے کام کیوں نہ لیا… جواباََ عذر پیش کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان پڑھ تھی وغیرہ وغیرہ…….
پھر سوال ہے کہ کیا ان پڑھ لوگ اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ نہیں ہوتے…..
اب صورتحال یہ ہے کہ فیصل نے قتل کا اعتراف کیا ہے مگر اس نے شہباز پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ماریہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا….. یوں اب سبھی ملزمان ہیں… سبھی پولیس کی حراست میں ہیں