Headlines

عجیب و غریب کیس۔ جویریہ ساجد

Spread the love

عجیب و غریب کیس۔

ایک خاتون نے مشورہ مانگا کہ ایک تیرہ چودہ سال کی بچی ان کے بیٹے کو مستقل میسجز کر کے تنگ کرتی ہے وہ اکیڈمی میں ساتھ پڑھتی ہے اکیڈمی سے نمبر لیا نمبر اس کی والدہ کا ہے بچے کے پاس وہ موبائل نہیں ہوتا والدہ نے نمبر بلاک کیا تو دوسرے نمبر سے میسجز کرنے لگی دوسرا بلاک کیا تو ptcl سے۔

اب والدہ پریشان ہیں کہ بچے کے پاس موبائل نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو گیم کے لیے بس لیکن اگر اس کی نگاہ پڑ گئی اس طرح کے میسجز پہ یا وہ لڑکی اکیڈمی میں ڈائریکٹ ہی ہو گئی تو لڑکے کی بھی کچی عمر ہے وہ مائل ہو سکتا ہے۔ اس کا کیا حل ہے۔

میرا جواب:
میرا ماننا ہے کہ کچھ غلطیاں اتنی سنگین ہوتی ہیں کہ جب بچہ پہلی بار وہ غلطی کرئے تو اس پہ شدید رد عمل دینا چاہیے۔
جیسے چوری کرئے تو رکھ کے تھپڑ لگا دیا جائے۔
بے راہ روی کی جانب یہ پہلا قدم ہے کہ کسی لڑکے کا نمبر حاصل کر کے اسے مستقل میسجز کیے جائیں اس لیے اس کا حل یہی ہے کہ اکیڈمی جا کے ان کے ہیڈ کے سامنے بچی کو بلائیں اس ڈے میسجز کی وجہ پوچھیں اور ڈانٹیں تاکہ بچی شرمندہ بھی ہو اور خوفزدہ بھی ہو۔

اس بچی کے والدین سے ملیں بات کریں انہیں اس کے میسجز دیکھائیں غلط الزام نا لگائیں مگر انہیں بتائیں کہ بچی کے مستقل میسجز سے آپ ڈسٹرب ہو رہی ہیں ماں باپ دونوں کو اس کے میسجز دیکھائیں۔

اگر آج آپ نے اسے کچی عمر یا پہلی غلطی وغیرہ کا مارجن دیا تو کل کو یہ بچی اس غلطی پہ شیر ہو جائے گی اور سوچیں اسی طرح کسی غلط ہاتھ میں چلی گئی جہاں اس کو ان میسجز پہ بلیک میل کیا جائے اور استعمال کیا جائے۔
یہاں پر یہ کہنا کہ بچوں کے جذبات کا احترام کریں وغیرہ بچوں کو شہہ دینا ہے

اس لیے اپنے بیٹے کے ساتھ اس بچی کا بھی بھلا اسی میں ہے کہ پہلے موقع پہ سخت ردعمل دیں۔

والدین سے چھپانا یا انہیں بے خبر رکھنا جرم ہے صرف اس لیے کہ والدین سختی کریں گے یا لڑکی کا پردہ رکھنا چاہیے تو والدین سے کیسا پردہ۔۔۔۔؟

ہمارے یہاں اکثر مائیں بچوں کی بڑی سے بڑی بات ہو جائے باپ سے چھپاتی ہیں کہ وہ سختی کریں گے ان کو سمجھنا چاہیے یہ سختی ضروری ہے ایک دفعہ کی سختی ساری عمر کا سکون ہے۔

سختی کا مطلب مار پیٹ نہیں بلکہ بچوں کے اندھا دھن موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال پہ چیک رکھنا ہے۔ اور ان کو کم سے کم ایکسس دینا ہے۔ اس کے ساتھ ان کی کونسلنگ کرنا اور ان پہ مکمل توجہ دینا۔ جو والدین اپنی بچیوں کو چھوٹا اور بچہ سمجھ رہے ہیں انہیں بھی خواب غفلت سے جگانا ضروری ہے۔ اس کے بعد والدین کی مرضی کہ وہ جاگ جاتے ہیں یا لبرل ازم کی نیند دوبارہ سو جاتے ہیں۔

آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ابھی یہ میسج اٹینڈ نہیں ہوئے جہاں کبھی اٹینڈ ہو گئے وہاں بات چیت کے بعد تصاویر اور پھر ہر طرح کی تصاویر اس کے بعد جو رونا والدین اور اس بچی نے ہے اسکا تصور بھی سوہان روح ہے۔

بچی کے نمبر بلاک کرنے سے وہ اکیڈمی میں رابطے رکھ سکتی ہے آپ اکیدمی بدل دیں گی تو شاید آپ کے بیٹے کا بھلا ہو جائے لیکن معاشرے میں ایک بگڑی ہوئی بچی پروان چڑھے گی اس وقت کے پاکستانی معاشرے میں جو حالات چل رہے ہیں وہ صرف وہی جان سکتے ہیں جو یہاں رہتے ہیں۔

باقی اپنے بچوں سمیت سب بچوں کے لیے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کے بچوں کو راہ راست پہ رکھے ہر برائی سے ان کی حفاظت فرمائے برے وقت اور برے لوگوں سے بچائے آمین ثم آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from gNews Pakistan

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading