قدرت اللہ شہاب کے متنوع رنگ…ریحانہ شاہین
اردو ادب میں قدرت اللہ شہاب کے ساتھ اب تک جو ناروا سلوک روا رکھا گیا وہ نہایت فکرانگیز ہے۔
دراصل اب تک قدرت اللہ شہاب کو زیادہ تر سیاسی زاویے پر ہی جانچا پرکھا گیا یا پھر جعلی صوفی کہہ کر معتوب ٹھہرایا گیا۔
وجہ ذاتی مخاصمت رہی ہو یا ادبی چپقلش
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ شہاب صاحب کو اب تک تو صرف انہی دو زاویوں کی کسوٹی پر ہی پرکھا گیا۔
آپ کو میری بات سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن سچ یہی ہے کہ متنوع رنگوں کے حامل شہاب نامہ کے اوائل ہی میں قدرت اللہ شہاب شوخی سے بھرپور ایک نٹ کھٹ شرارتی اور چلبلے نوجوان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ کہیں ابن انشا کی ظرافت انہیں اپنی لپیٹ میں لیتی محسوس ہوتی ہے تو کہیں ان پر رومانویت سے بھرپور ممتاز مفتی ہونے کا گمان غالب ہونے لگتا ہے۔
جموں میں پلیگ ہی کو لیجیے حکیم گوراندتہ مل کا ذکر کرتے ان کی شوخی و ظرافت مکمل عروج پہ دکھائی دیتی ہے۔ اپنی شرارتوں سے حکیم صاحب کی ناک میں دم کرتے شہاب صاحب قارئین کو محفوظ کرنے کا کام بھی بخوبی سرانجام دیتے چلے جاتے ہیں۔
ویسے تو مولوی عبدالحنان اور صادقہ بیگم کا ذکر بھی ان کی شوخ طبیعت کا غماز ہے لیکن یہیں ان کی طبیعت میں ممتاز مفتی والی رومانویت بھی در آتی ہے اور وہ قاری کو بےاختیار رومانویت سے بھرے پیکر میں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے میں وہ ایک ایسے کم عمر عاشق کا روپ دھارتے لیتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ دیر اپنے محبوب کی رفاقت حاصل کرنے کی تگ و دو میں کچھ بھی کرنے کو تیار بیٹھا ہو۔
کبھی اس عاشق کو نیلی نیلی مخملی آنکھوں میں عود کر آنے والے شبنمی قطرے چوٹ کھا کر گرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی حنائی ہاتھ اور سرخی لگے ہونٹ اس کا دل موہ لیتے ہیں۔
صادقہ بیگم اور چندراوتی نے تو خیر ممتازمفتی کی ہی یاد تازہ کردی۔ خیر آگے دیکھیے
بات ادبی منظرنامے کی ہو تو شہاب صاحب کہیں جعفر طاہر کی فارسی شاعری سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیں گے ہیں تو کہیں شیلے کے Bridal Song سے متاثر ہو کے تراجم کی صورت سہاگ گیت گاتے دکھائی دیں گے۔
علی گڑھ تحریک کی بات ہو یا مسلمان نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے سرسید کا جنون یا پھر ترقی پسند تحریک کچھ بھی تو ان سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ کھلے ڈھلے انداز میں سرسید فراق گورکھ پوری جیسے کئی شاعروں ادیبوں کی عظمت کا اعتراف دراصل خود ان ہی کے اعلی ظرف ہونے کی نشانی ہے۔
اسی طرح شہاب نامہ میں مذہبی اعتقادات و توہمات کی جھلکیاں بھی جابجا بکھری پڑی ہیں۔ ہندو مسلم فسادات کی بات ہو یا ان کے اعتقادات کی شہاب صاحب نے ہر جگہ اپنا مذہبی شعور نہایت پختہ ہونے کا ثبوت دیا۔
ان کی بذلہ سنجی اور رومانویت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو محض اس پہلے باب میں ہی سماجی نفسیات سے آگاہی ان کی تحریر میں ایک نئی جان ڈالتی دکھائی دیتی ہے۔
پلیگ کی وجہ سے سماج میں در آنے والا خوف وقتی نہیں، یہی خوف کئی بار بار پہلو بدل بدل کر سامنے آچکا ہے۔
فکر سے ہٹ کر بات کی جائے تو عبارت کی سلاست و روانی بھی دیکھنے کے لائق ہے قاری بغیر کسی توقف کے نہایت روانی سے اس عبارت کے ساتھ بے اختیار کچھ اس طرح بہتا چلا جاتا ہے کہ خود قاری بھی اس بہاو کو محسوس کرتے ہوئے بےاختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہاں قاری کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف اسے کچھ دیر توقف کرنے پر واقعی مجبور کردیتا ہے لیکن آگے پھر وہی روانی اس کی منتظر ہوتی ہے۔
قارئین اگر بنی بنائی روایت سے ہٹ کر بذات خود ادب کے نئے گوشے تلاش کریں تو کئی معتوب لکھاریوں کو ان کا اصل اور جائز مقام دلا سکتے ہیں۔