دستِ حنائی(نظم)۔حامد رمضان
کئ برس ہوئے اک سندرتا کی مورت کا جب دستِ حنائی دیکھا تھا
کیا غضب نفاست تھی اس کی
اور عجب طلسم تھا اس میں
کہ ساری دنیا سے کٹ کر بس اس سے رابطہ تھا
مجھ کو
وہ سندرتا کی مورت جب بھی قلم پکڑ کر دستِ حنائی سے اپنے کچھ لکھتی تھی
سب لفظ امر ہوجاتے تھے
صفحوں پر پھول بکھرتے تھے
سطروں سے خوشبو آتی تھی
ماحول نکھرتا جاتا تھا
اُس دستِ حنائی کے سارے جو نقش تھے دل پر نقش ہیں سب
وہ دستِ حنائی آج بھی جب یادوں کے آنگن دِکھتا ہے
میں دنیا سے کٹ جاتا ہوں
میں وقت کو ساکت پاتا ہوں
اور سر کو جھٹکتا رہتا ہوں
کچھ سانس اکھڑ سی جاتی ہے
اس آس پے حامد ذندہ ہیں
قادر جب کُن فرمائے گا
وہ محرم بن کر آئے گی
اور پھر وہ اپنے ہاتھوں پہ مرے نام کی حنا رچائے گی
وہ اپنے دستِ حنائی سے مرے بالوں کو سہلائے گی
پھر سر کا جھٹکنا رک جائے گا
سانس اکھڑنا بند ہوگی
میرے ہاتھ کو جب وہ تھامے گی
میری الجھی قسمت کی ریکھا اس روز سلجھ ہی جائے گی