overpopulation: from eugenics and genocide to woman’s reproductive rights (a perspective)
زیادہ آبادی: یوجینکس اور نسل کشی سے لے کر عورت کے تولیدی حق تک..سائرہ رباب
ایک سوشلسٹ اسکالر. Martin E posh کہتا ہے کہ کرہ ارض پر غربت ، بھوک اور ماحول کی تباہی کی اصل وجہ زیادہ آبادی کا ہونا نہیں بلکہ لوگوں کی اصل ضروریات کو پس پشت ڈال کر اندھا دھند منافع کمانے کا جنوں ہے ۔۔۔
کچھ محققین اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب eugenics, نسل کشی (genocide , ethnic cleansing)یا مہاجرین کے لئے بارڈر بند کرنے کے مدعا پر اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر کڑی تنقید ہونے لگی تو overpopulation کی اصطلاح ایجاد کی گیی جسکی آڑ میں نسلی اور کلاس پر مبنی تعصبات ، دشمنی اور استعماری مقاصد کو چھپا دیا گیا اور سیاسی نوعیت کے مسائل کو depoliticized کر دیا گیا ۔۔
اینجلا فرانکس 2005 میں اپنی کتاب
Margeret Sanger’s Eugenic Legacy
میں لکھتی ہیں کہ اوور پاپولیشن کے اس ہیسٹریا میں تولید (reproduction)کے عمل کو جبرا ویسے ہی روک دیا گیا جیسے eugenics اور نسل کشی کے واقعات میں ۔۔۔
مقامی امریکن ڈاکٹر
Redbird Uri
اسکو چند بیوروکریٹس کا ” genocidal Dream” کہتا ہے ۔۔۔وہ بتاتا ہے کہ 1977 میں ایک تہائی خالص النسل مقامی ریڈ انڈین خواتین کو بانجھ بنا دیا گیا جنکا تعلق اوكلاہاما قبیلے سے تھا ۔۔۔
امریکی صدر Lyndon نے rand carporation economist ادارے کے ذریعہ ایک جعلی اسٹڈی کروای جس کے مطابق تیسری دنیا کے بچے منفی معاشی ویلیو رکھتے ہیں جسکی وجہ سے ایشیا، لاطینی امریکا اور افریقہ زیادہ بچے پیدا کر کے نہ صرف دنیا کی غربت میں اضافہ کر رہے ہیں بلکہ غصے سے بپھری اور بغاوت پر امادہ فیوچر جنریشن بھی پیدا کر رہے ہے ۔جو غربت اور بیروزگاری سے عاجز آ کر عنقریب بغاوت کا علم بلند کیے امریکا کے خلاف جنگ کا حصہ بننے والے ہیں ۔
لوگوں کے خلاف اس جنگ (anti human war) کی شروعات کو ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔۔آغاز سے لے کر اب تک یہ چار مراحل سے گزری ہے ۔۔۔
پہلی سٹیج Mathisianism ہے جب اس نام کے سائنس دان نے یہ دعوی کیا کہ آبادی کے بڑھنے سے خوراک اور وسائل کم ہو جاتے ہیں جو قحط ,فاقے اور جنگ کو جنم دیتے ہیں یہاں سے اس مسلہکی انٹلیکچوئل بنیاد رکھ دی گیی ۔۔۔
دوسری فیز eugenics کی ہے اس تھیوری کے مطابق دنیا جینز اور ڈی این اے کے لحاظ سے کمتر اور برتر نسلوں میں بٹی ہوئی ہے ،جن میں وائٹ برتر ترین نسل ہیں جبکہ کالے ڈارک رنگ کے لوگ کمتر جینز رکھتے ہیں ۔۔باقی کہیں بیچ میں رہتے ہیں ۔۔بہتر دنیا اور سماج پیدا کرنے کے لئے کمتر جینز پر مشتمل نسلوں کی آبادی کو روکنا ضروری تھا ۔۔۔اس تھیوری کے تحت ہوئی قانون سازی کے نتیجہ میں marginalized اور مقامی لوگوں کو تولید کے بنیادی حق سے محروم کر کے زبرداستی بانجھ کرنے کے لئے قانون سازی کی گیی ۔۔۔اس کی بدولت صرف بیسویں صدی میں ستر ہزار لوگوں کو بانجھ کیا گیا ۔ امریکا میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہر چار سے ایک مقامی عورت کو بانجھ کیا گیا ۔۔یہ تعداد اسی کی دہائی تک پہنچتے پچاس فیصد ہو گیی ۔۔
ستر کی دہائی میں USAID اور ورلڈ بینک کے ذریعہ آبادی کنٹرول کرنے کی مد میں حکومتوں کو بڑے بڑے فنڈ دیے گئے ۔۔جس کے نتیجے میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کر کے لوگوں کے بنیادی حقوق اور آزادی کو سلب suspend کر کے چھ ملین لوگوں کو جبرا بانجھ بنایا گیا ۔۔۔ یہ در حقیقت وائٹ امپیریلزم پلان کا حصہ تھا ۔۔
چین میں بھی one child پالیسی کے تحت نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا جیسے kazakhs & Uyghurs
انڈیا میں بھی کچھ متعصب سیاستدانوں نے غیر ہندو آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے لئے یہی تجویز دی ۔۔ہندوستان میں ستر کی دہائی میں اسکی آڑ میں شودروں اور مسلمانوں کو بانجھ بنایا گیا ۔۔
پیرو میں غیر هسپانوی مقامی آبادی کو نشانہ بنایا گیا ۔۔کوسوو میں serbs نے البانیہ کی آبادی کے خلاف ۔
ہٹلر نے اسی کے تحت 1935
میں 56000 یہودیوں کو مروایا تھا ۔۔arther Jensen
کہتا ہے کہ امریکا میں دو لاکھ سے زیادہ بلیک اور ورکنگ وومن کو بانجھ بنایا گیا ۔۔وہ اسکو کالوں ،ورکنگ وومن اور مہاجرین کی نسل کشی (genocide) قرار دیتا ہے جہاں ان لوگوں کی مدد اور بھلائی کی آڑ میں genocide نسل کشی کی جاتی ہے جو غربت کی وجہ سے بچوں کی پرورش نہیں کر سکتے (اور جن کی ضروریات پوری کرنا ، روزگار مہیا کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے )
تیسری فیز
امریکا میں آتے آتے یہی تھیوری
Population explosion / bomb
بن گیی اس تھیوری نے کچھ قدم آگے بڑھتے ہوئے دوسرے تمام زمینی وسائل اور رہنے کی جگہ کو بھی شامل کر لیا ۔۔لیکن اب بھی نشانہ ڈارک کلرڈ مقامی ہی بنے ۔۔۔اسکے نتیجے میں بھی ہنگامی طور پر آبادی کم کرنے کے لئے coercion یعنی جبری بانجھ کرنے کی پالیسیز بنائی گییں ۔۔
اس ہتھیار کو امریکا یورپ نے زیادہ تر اپنی کالونییز میں استمال کیا ۔۔جنہوں نے ورلڈ بینک اور امریکا سے بھاری فنڈ وصول کیے اور اپنے ہی لوگوں کو شکار بنایا ۔۔۔ان حکومتوں اور مقتدر حضرات نے اپنے مقاصد بھی اس سے حاصل کیے اور اپنے حریفوں کو نشانہ بنایا ۔۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق چین میں صرف چھ سال میں پچاس ملین ابارشنز ہوئیں ۔۔۔ پیرو میں کسان خواتین کے خلاف عمل درأمد ہوا ۔۔
لیکن پھر نوے کی دہائی میں اس پر میڈیا ڈیبیٹ کا آغاز ہوا اور ان جبری پالیسیوں کے خلاف کڑی تنقید سامنے آنے لگی ۔کہ یہ top down پالیسیز تھیں یعنی اوپر طاقتوں کی اتھارٹی عام لوگوں پرمسلط کی گیی تھی اور فیصلہ سازی کے عمل میں لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا ۔انکی رضا مندی شامل نہیں تھی ۔۔۔
دوسرا برتھ ریٹ تیزی سے گرنے کی صورت میں ایسے جبری قوانین کے ختم کرنے کی ڈیمانڈ کا خدشہ پیدا ہوا تو اب اسکو خواتین کے تولیدی حق
Reproduction rights
کی آڑ میں فیملی پلاننگ کی شکل میں پیش کیا گیا ۔۔۔اور پھر آبادیاتی ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ جبری طریقوں کو اپنانے سے کہیں بہتر لوگوں کو فیملی پلاننگ کی ایجوکیشن دے کر انکو قائل کرنا آسان اور بہتر حل تھا ۔ تولیدی حقوق کی بات کرتے ہوئے عورت کو چوائس ملنے کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن لبرل فیمنسٹ اسکالر Betsy Hartsmann تنقید کرتی ہیں کہ عورت کی چوائس میں اسکا بچہ پیدا کرنے کا حق بھی شامل ہے لیکن یہ حق عورتوں سے چھین لیا گیا ہے ۔۔ آبادی کو بچہ جننے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے ۔۔
UNFPA
کے مطابق اسی ممالک میں برتھ ریٹ گرنے کی وجہ سے
Below replacement fertility
کی سچویشن پیدا ہو گیی ہے جو معاشی طور پر بہت بڑی تباہی کا باعث ہے ۔۔ اسکے مطابق بوڑھوں کی تعداد جوانوں سے زیادہ ہے جو کام کر سکتے ہیں ۔۔اور پیدا ہونے والوں کی تعداد مرنے والوں سے کہیں کم ہے ۔۔بوڑھوں کو پنشنز اور سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اس قلیل آبادی پر ٹیکس لگاے جاتے ہیں جو ورکنگ یوتھ پر مشتمل ہے ۔۔پروڈکشن کم ہونے لگتی ہے ۔۔تنخواہ ، الّونس ، پنشنز میں کٹوتیاں بڑھنے لگتی ہیں ۔۔اور معاشی طور پر سماج مفلوج ہونے لگتا ہے۔