انگلش کی غلامی..میاں اسامہ صادق
پاکستان کو انگریزوں سے آزاد ہوئے 75 سال سے زیادہ ہو گئیے لیکن انگریزی زبان کی غلامی کی زنجیروں میں ہم دن بدن جھکڑے جا رہے ہیں۔ پاکستانی عوام نے شعور جا معیار انگریزی کو سمجھ لیا ہے۔ کسی محفل مین گر کوئی انگریزی کے چار لفظ بول دے تو سب اسے عقیدت مند نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اور بولنے والے کے عزیز و اقارب اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس سے ہماری ذہنیت کا پتہ چلتا ہے کہ ہم غلامی پہ کتنا فخر کرتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ لیکن اردو کو چھوڑ کر ہم نے انگریزی کو اپنا معمول گفتگو بنا لیا ہے۔ اگر کسی بچے کے سامنے اردو میں گنتی بول دی جائے تو منہ دیکھتا رہتا ہے جیسے کسی اور گلیکسی کی زبان بول دی ہو۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا سب سے بڑا پہلو اسکی قومی زبان ہوتی ہے 1949میں ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین میں غیر ملکی سامراج کے تمام تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے.اس زمانے میں اشتمالی دنیا میں روسی زبان کا ڈنکا بج رہاتھا.لیکن ماؤزے تنگ نے روسی زبان کو چین کی زبان بنانے سے انکار کردیا.اور مقابلتا چینی جیسی پسماندہ اور مشکل زبان کو چین کا ذریعہ تعلیم بنایا. ظہور اسلام کے وقت عربی میں شعراء کے قصیدوں کے سوا کچھ نہ تھا. لیکن ساتویں سے تیرھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے یونانی اور دیگر زبانوں سر کاری سرپرستی میں تمام علم اپنی زبان میں منتقل کیا. اور سائنس کو نظرئیے کے خول سے نکال کر تجربے کی لذت سے آشنا کیا. مسلمانوں نے لاطینی ‘ یونانی اور رومی سے علم لیا. زبان نہیں لی! ذریعہ تعلیم عربی ہی کو رکھا.
اس طرح انگریزی میں شیکسپئر کے ڈراموں اورشاعری کے سوا فلسفہ تھانہ سائنس’ انگریزوں نے اپنی نشاۃالثانیہ کے دور میں عربی’ لاطینی یونانی کے علوم کا ترجمہ کر کے اپنی زبان کا دامن بھر دیا.اور ترجمے کی بدولت اسے صف اول کی سائنسی زبان بنا دیا. پاکستان میں ایک غیر ملکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے والے غلامو ذرا اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کرو کہ ہر ترقی یافتہ قوم دوسری ترقی یافتہ قوم سے علم مستعار لیتی ہے زبان نہیں.ذریعہ تعلیم اپنی زبان ہی رکھتی ہے تاکہ تخلیق اور علم کا سلسلہ جاری رہے. پر تم نے کس بنیاد پر فطری اصول سے اغماص برتتے ہوئے ایک غیر ملکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر یہاں پر علم ‘ سائنس اور تخلیق کے دروازے بند کردئیے ہیں. تم نے انگریزی سے علم نہیں لیا. صرف زبان اور تہذیب لی یہی پاکستان کے تعلیمی نظام کی پسماندگی ‘ جمود اور بدعنوانی کا سبب ہے۔ ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی انگریزی ہے ۔ طلباء کی ساری کتابیں انگلش میں ہیں۔ بچے رٹا لگا لیتے ہیں لیکن انکا کانسیپٹ کلئیر نہیں ہوتا۔ انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔
پہلے غلامانہ ذہن کے والدین اپنے بچوں کو غلام بنانے کیلئے انگریزی سکولوں میں بھیجتے تھے اور اب دیکھا دیکھی حکومت نے سرکاری سکولوں کا نصاب انگریزی میں کر دیا۔ انگریزی سیکھنا غلط بات نہیں ہے۔ لیکن انگریزی یا کسی اور زبان کو اپنے اور مسلط کر لینا غلط بات ہے۔ آپ اردو کو ہی پاکستان کی قومی زبان رہنے دیں، انگریزی کو قومی زبان بنانے کی کوشش مت کریں۔ اور پاکستان کی سرکاری زبان بھی اردو ہی رہنے دیں نا کہ انگریزی۔ ترقی یافتہ ممالک دیکھ لیں ۔ وہ اپنی قومی زبان کا سودا نہیں کرتے۔ قومی زبان کسی بھی ملک کی شناخت ہوتی ہے۔ اور جب کسی انسان یا قوم سے اسکی شناخت چھین لی جاتی ہے تب اسکا وجود ختم ہو جاتا ہے۔قومی زبان ہی ذہنی آزادی کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں اور لہجوں کی افادیت اور اہمیت سے کسی بھی آزاد ملک میں انکار نا ممکن ہے لیکن قومی زبان یا زبانیں ہی اقوام کا امتیازی نشان ہوتی ہیں۔
زبان اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک خاص نعمت ہے جو کہ معاشرتی ضرورت کے تحت بولی جاتی ہےتاکہ ہمارا مخاطب ہماری بات سمجھ سکے۔ دیگر زبانیں مثلاً عربی ، فارسی اور انگریزی وغیرہ سیکھنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن یہ ہماری قومی زبان نہیں۔ قومی زبان کی اہمیت اور قوت جب دیگر ممالک سمجھتے اور جانتے ہیں تو ہم اور ہماری حکومت کیوں نہیں جان سکی، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔پاکستان کا محرک اول اگر اسلام تھا تو محرک دوم اردو زبان تھی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا، “میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہوگی۔ دیگر دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔” جب یہ طے ہو چکا ہے تو ہمیں اپنی قومی زبان اردو میں لکھے اور بولے جانے پر شرمندگی کیوں؟
اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنی زبان کی باوقار اور خوددار قومیں ہی قدر اور فخر کرتی ہیں نہ کہ ان کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر خود کو کمتر سمجھتی ہیں۔ اس لئیے انگریزی کی غلامی سے نکلیں اور اور اپنی قومی زبان کو بولیں سمجھیں اور اس پہ فخر کریں۔