Headlines

سو سنار کی ایک لوہار کی..وکی بابا

Spread the love

سو سنار کی ایک لوہار کی..وکی بابا

نائی ذات کے شخص نے درزی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا تو بہت بری بات ہے کہ پہلے تو کسی کو ذات برادری کا طعنہ دینا ہی نہیں چاہیے کہ بات دور تک نکل پڑے گی اور رکنے کا نام ہی نہیں لے گی کیونکہ آسمان سے کچھ کھانے کی پاداش میں اتارے گئے تھے ظاہر ہے جب نیچے زمین پہ بھوک سے بے حال ہو کر کھانے پینے کی تلاش میں کچھ نہ کچھ جب تک مفت ملتا رہا ہو گا تو تب تک تو راوی نے چین ہی لکھا ہو گا پر آخرکار کوئی نہ کوئی کام کاج، کمانے کا کوئی نہ کوئی دھندہ شروع کیا ہی ہو گا تو بس جو کام جتنا زیادہ کیا ہو گا یا جس کام میں مشہور ہو گئے ہوں گے وہی ذات پڑ گئی ہو گی بقول ایک پنجابی شاعر:
کوئی موچی اے
کوئی نائ اے
مولا تیری خدائی اے
بقول دوبارہ اسی پنجابی شاعر:
کوئی تن ویچے
کوئی من ویچے
کوئی فن ویچے
پر ہم فن نہیں بیچتے کیونکہ ہمارے فن کو یار لوگ انگریزی کا ایف یو این فن سمجھ کر مذاق میں اڑا دیتے ہیں.
کاش ہم واقعتاً فنکار ہوتے ہمارا بھی فن بکتا پیسے آتے کیونکہ حقیقت بات ہے اس دنیا میں فنکار ہی زیادہ کامیاب ہیں، اور ایک انگریزی کہاوت:
“There is no business like showbiz ness”
یا ایسے کہہ لیں ہے کہ جو زیادہ فنکاری کر گیا وہ کامیاب، اللہ کرے آخرت میں اللہ کے حضور بھی تمہاری فنکاریاں چل جائیں.
ہا ہائے ہاں واقعی یہ تو بات کافی دور تک نکل گئی، چلیں دائرہ محدود کر کے برصغیر پاک و ہند پہ آتے ہیں کہ تقسیم ہند سے پہلے بلکہ اس سے بھی زرا پہلے انگریزوں کے دور میں کیا ہم واقعی غلام تھے جی ہاں تو انگریز کی حاکمیت میں حکمران اپنے غلاموں سے جو جو کام لے سکتے تھے وہ لیتے رہے اور دو یا شاید صبح دوپہر شام روٹی کپڑا کسی مکان وغیرہ میں دیتے رہے، یہ لین دین کا سلسلہ چلتا رہنے کے باوجود دنیا فانی ہے کہ اصول پر ایک نہ ایک دن تو ختم ہونے کا نام لے ہی گیا تو بھاگتے چور کی لنگوٹی موافق کچھ نہ کچھ غلاموں کے ہاتھ ضرور آیا کسی کو نام اور کسی کو انعام کسی کو زمین اور کسی کو مشین وہ الگ بات کہ بعد میں کسی نے مشین چلا چلا کر زمین بنا لی اور کسی نے زمین بیچ کر مشین لگا لی وہ پھر اپنی قسمت اور نصیب کے کسی کی مشین پیسے بنانے والی کپڑے بنانے والی اور کسی کی مشین کپڑے سینے والی،
اسی طرح تقسیم ہند میں ذات برادریاں پیشے وغیرہ کی تقسیم یا لوٹ سیل لگ گئی، کئی اس پار کے راجے اس پار نائی بن گئے اور کئی ادھر کے نائی ادھر راجے کہلائے، قارئین ادھر اور اس پہ اپنی مرضی کے مطابق زیر زبر پیش لگا سکتے ہیں.
سرحد بلکہ ہر حد انسانوں کے لیے ہے،
اس لی اے ہم بھی ایک حد تک محدود رہتے ہوئے صرف درزی کی بات کرتے ہیں پر بقیہ تحریر میں کوئی گارنٹی نہیں کہ بات کہاں سے کہاں نکل جائے اور کس حد تک’
تقریباً مکمل ان سلے کپڑے سے تو مولوی ہی ڈھانپتا ہے وہ بھی مرنے کے بعد جی ہاں سوری رات دے ویلے کفن کا زکر آ گیا لیکن شاید زمانے کے بدلتے رواجوں کے مطابق جزوی سلے ہوئے کفن یا مکمل سلے سلائے کفن بھی ملتے بکتے ہوں ہمیں نہیں پتہ کیوں کہ مرے نہیں ابھی تک بقول انڈین گیت ساز شاعر:
میں یہاں ٹکڑوں میں جی رہا ہوں
تو کہیں ٹکڑوں میں جی رہی ہے
خیر درزی کپڑے سیتا ہے جیتے جاگتے انسانوں کے لیے اور تن ڈھانپنا اچھی بات ہے اور اگر انسان جنگل کے علاوہ کہیں اور رہ رہا ہو تو اسے تن ڈھانپنے کے لیے سلے ہوئے کپڑوں کی ضرورت تو پڑتی ہے وہ الگ بات ہے کہ جنگل کا قانون رائج الوقت دستور ہے،
شکریہ ادا کریں درزی کا کہ وہ کپڑے سلائی کر دیتا ہے ورنہ پیکنگ کے لیے شاپنگ بیگز یعنی پلاسٹک کے تھیلے استعمال کرنا پڑتے وہ الگ بات کہ آدھا لباس سلوانے والے لوگ ہیں اور آدھی گرہ باندھ یا گانٹھیں لگا کر پہن لیتے ہیں، اور آج کل کی گرمی میں شاید درزی کی ضرورت ان کے آدھے تن کو بھی نہ پڑتی ہو کہ کسی اور جسم سے اتاری کسی کی چادر اپنے ارد گرد باندھ لی، ویسے خیال کرنا چاہیے کہ اپنی تعمیر و ترقی کی دوڑ میں بھاگتے بھاگتے اور دوسروں کو سالہا سال سے پچھاڑتے پچھاڑتے کہیں کسی کا پاؤں آپ کے ان سلے لباس پر آ گیا یا اتاری گئی چادر کا پلو واپس مالک کے ہتھے چڑھ گیا تو یہ نا ہو کہ آپ صرف لباسِ فاخرہ میں رہ جائیں،
سو اگر چادر چار دیواری سب ہی کو عزیز ہے تو چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا مطلب یہ بھی تو ہے کہ دوسرے کی چادر پہ پاؤں نا پسارے جائیں، چار دیواری کہ معنی بالکل یہ تو نہیں کہ کسی معصوم کے پلک جھپکنے کہ دوران ہی آپ اپنی چار دیواری اتنی ناجائز تجاوز کر جائیں کے اگلے کے پہاڑ کے پہاڑ اس کی آنکھ سے اوجھل کر دیں یا دوسرے کے لباسِ فاخرہ میں آنے کے منتظر ہیں؟
لباسِ فاخرہ کا لفظی مطلب اردو ڈکشنری میں شاید سنسر ہو چکا ہو پر شہر کے مشہور معروف مرحوم وکیل اکثر دوستوں کی نجی و مخلوط محفل میں اس لفظ کا وہ مطلب سمجھاتے تھے کہ آس پاس پانی کی قلت پڑ جاتی تھی کیونکہ شرم سے ڈوب مرنے کا دل تقریباً سبھی کا کرتا تھا لیکن منافقانہ قہقہوں کی آواز اتنی بلند ہوتی تھی کہ ضمیر کی آواز دب جاتی تھی،
اسی طرح کسمپرسی کے حالات گزارنے والی مفلوک الحال بیوی کے شوہر کو اس کی ایک عزیزہ نے کہا کہ بھائی جان آپ اپنی گھر والی خاتون خانہ کو بھی کبھی کبھار اچھے کپڑے لے دیا کریں تو اس بیباک مرد نے یہ کہہ کر محفل لوٹ لی کے مجھے تو میری بیوی صرف لباسِ فاخرہ میں ہی اچھی لگتی ہے، ظاہر ہے یہ ایک بیڈروم سیکرٹ تھا جو اس شخص نے صرف چند قہقہے بٹورنے کچھ سیلوٹس سمیٹنے کچھ تالیاں بجوانے یا اپنی جے جے کار کروانے کے لیے ہی اپنی بیوی کا لطیفہ بنوا دیا حالانکہ اس کا نام ہرگز ہرگز لطیف نہیں تھا، اس بیوی پہ کیا گزری ہو گی یا اس خاتون پہ کیا گزری ہو گی جس نے بھائی پکار کر ایک سادہ سی خیرخواہی چاہی تھی وہ بھی اپنی بھابھی کی. خیر کیا گزری ہو گی کسی عورت پہ جو ہمارے معاشرے کی اکثر عورتوں پہ دن رات گزرتی ہے کہ مجازی خداؤں کو ہر جائز و ناجائز پہ خوش کرنے کے علاوہ دنیا و آخرت کہاں سنورنی جنت کہاں ملنی وہ الگ بات ہے کہ وہ شہری بابو خود ستر حوروں کے جھرمٹ میں اپنی بیوی کو کب سے بھلائے بیٹھا ہو.
خیال رکھیں کہ اپنی زبان درازی یا تقریر طرازی میں اتنا بے دھڑک نہیں ہونا چاہیے کے محفل لٹنے کہ ساتھ ساتھ وکٹمائز ہونے والے کو ایسا لگے کہ شاید اس بیچارے کی عزت ہی لوٹ لی گئی ہے اور دریافت کرنے پہ صرف اسے یہ شعر یاد رہے کہ:
ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
وہ الگ بات ہے کہ:
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں
مگر:
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے گی جسے روشن خدا کرے…..
بسا اوقات قانون قدرت بھی ظالم کی رسی کو ایسی ڈھیل دیتا ہے کہ ہوا مظلوم کی حفاظت کرنے کی بجائے ظالم کو تحفظ دیتی پھرتی نظر آتی ہے اور کئی ابن الوقت لوگ اندھیرے میں بھٹکتے پھرتے اپنے چراغ روشن کرتے ہی اس شمع کو بجھانے پہ تل جاتے ہیں جس کی مرہونِ منت انہیں نظر آنا شروع ہوا
لوٹنے لٹانے کو بھی کئی جگہوں پہ کاروبار سمجھا جاتا ہے ایک خاص کاروباری منشور کے ساتھ کہ عزت دو عزت لو، الگ بات ہے لٹنے والی چیز بیشک عزت ہو،
یہاں پر قارئین کی نفاست کو مد نظر رکھتے ہوئے اجازت ہے کہ آپ عزت کے ساتھ نفس کا اضافہ کر کے عزت نفس اکٹھا استعمال کر سکتے ہیں پر ہمارے خیال میں عزت نفس مجروح ہونے کا مطلب اصل میں عزت لٹنے سے کم ہے کیا؟
کیا عزت نفس مجروح کرنے والے پہ کوئی حدود آرڈیننس نافذ ہونا چاہیے کہ نہیں؟
زیادتی کسی قسم کی بھی ہو دل دماغ ذہن پہ ہی لگتی ہے کیا دل دماغ ذہن انسانی جسم کا حصہ نہیں؟
اگر ہاں تو زیادتی کی ہر قسم جسمانی زیادتی ہی کہلائے گی، اگر نہیں تو:
میری نیند میرا چین مجھے لوٹا دو
یہ ایک انڈین گانا ہے اور اس میں شاعر کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی کے اسے پیار ہو گیا گو کہ ہم بھی تھوڑے بہت شاعر ہیں پر ہمارے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ ہم سے کوئی پیار ہی نہیں کرتا سوائے ماں کے لیکن ہم ماں کا دن نہیں منا سکے کیونکہ سال بعد ماں کو احساس دلانے کا کیا فائدہ کہ آپ ہماری امی جان ہیں، یہ کام تو روز روز کرنا چاہیے، خیر اچھی بات ہے سالہا سال سے سال بھر خیال رکھنے والی ماں کو کم از کم ایک دن کچھ اسطرح سے انٹرٹین کیا جائے کہ ماں کو بہت اچھا اور کچھ نیا نیا سا لگے، لیکن خیال رہے کہ بچوں کی ماں کو کچھ نیا نیا نہ لگ جائے،
راقم التحریر کو تو اپنی کنوارگی کہ وجہ سے یہ ڈر بھی لگا ہوا کہ رات کے اس پہر والدہ محترمہ کی آنکھ کھلے اور وہ بڑبڑاتے ہوئے کہیں کہ نجانے اس وقت کس “ماں” کے ساتھ موبائل پہ لگا ہوا.
نوٹ:
لوہار کی ایک دفعہ کی لگنے والی بیشک ایک ہی وار میں قصہ تمام کر دیتی ہے پر سنار کی سو دفعہ لگنے والی سو مرتبہ تکلیف دیتی ہے نہ جیتا ہے انسان نہ مرتا ہے بس ادھ مویا سا….. ختم شد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from gNews Pakistan

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading