سستا مزدور..میاں اسامہ صادق
پاکستان دنیا کا ایسا ملک ہیں جہاں وزیروں اور مشیروں کا لاکھوں میں تنخواہ اور کڑوروں میں ضروریات زندگی کی آسائشیں مہیا کی جاتی ہیں، وہاں ایسا بھی طبقہ ہے جنکی ماہانہ تنخواہ چند ہزار روپے ہے اور یہ پاکستان کے سب سے سستے مزدور ہیں۔ یہ صبح سات بجے سے لے کر دوپہر 2 بجے تک محنت کرتے ہیں اور انکو تنخواہ کے نام پہ چند سکے تھما دیے جاتے ہیں۔ یہ مزدور پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ ہیں۔ پاکستان میں انکی تنخواہ اوسطاً سکولوں میں 5 ہزار ہے اور کالجوں میں 20 ہزار۔ آج کا ایسا دور جہاں ہر طرف مہنگائی کا بول بالا ہے وہاں انکی ماہانہ آمدن سوائے انکی تذلیل کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ پرایویٹ تعلیمی ادارے بچوں سے تو بھاری بھرکم فیس لیتے ہیں مگر اساتذہ کو انکی محنت کے برابر تنخواہ نہیں دیتے۔ اوپر سے طلم یہ ہے کہ چھٹی کرنے یا لیٹ ہونے پہ آپکی تنخواہ کٹے گی۔ کچھ اداروں میں تو لیکچر کے حساب سے تنخواہ ملتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے آپکا ایک لیکچر یا زیادہ لیکچر مس ہو گئے تو آپکو انکا معاوضہ نہیں ملے گا۔ آپ بیمار ہیں، کسی مصیبت میں مبتلا ہیں یا کوئی حادثہ ہوگیا ہے تو بھی آپکو کوئی چھٹی نہیں ہے، اگر چھٹی کرنی ہے تو اپنی اتنی تنخواہ کی قربانی دینی پڑے گی۔ ایک تو تنخواہ کم اوپر سے چھٹی کی کٹوتی ۔ اور دیکھیں تو اتنی تنخواہ سے بنتا کیا ہے۔ کچھ تعلیمی ادارے ہیں جو سرکاری تعلیمی اداروں سے زیادہ تنخواہ دیتے ہیں مگر زیادہ تر 5 ہزار اور بیس ہزار والے ہی ہیں۔ اس سے گزارا کرنا نا ممکن ہے۔کچھ دن قبل ایک ٹیچر نے رابطہ کیا جو گھر کا واحد کفیل ہے اور اس کے بچوں کی فیس اس کی تنخواہ سے کٹتی ہے۔ اب اسکول کی گرمیوں کی چھٹیوں کے حوالے سے پالیسی ہے کہ جون کی فیس دیں گے، تو جون کا سمر پیک (چھٹیوں کا کام) ملے گا، جولائی کی فیس پر جولائی کا کام، لیکن اساتذہ کو تنخواہ ستمبر میں ملے گی۔ کچھ فرنچائزز میں اساتذہ کو گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ سرے سے ملتی ہی نہیں یا اگلے جنوری اور فروری کی تنخواہ کے ساتھ ملتی ہے۔ اس دوران اگر وہ ٹیچر ریزائن کرجائے تو تنخواہ پہ فاتحہ لازم ہے۔ اس ٹیچر نے التجا کی کہ اس کے بچوں کے نام اسکول سے خارج کر دیے جائیں گے کیونکہ تنخواہ نہ ملنے کے سبب وہ اپنے بچوں کی چھٹیوں کی فیس کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے اور کسی نئے اسکول میں داخلے کی صورت وہ ایڈمیشن، یورنیفارم، کتابوں کا خرچ بالکل نہیں برداشت کر سکتے۔ صرف دو منٹ نکال کر سوچیں کہ ہمارے اساتذہ، جو دوسروں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں انہیں اپنی اولاد کی فیس اور تعلیم کے لیے اوروں کے سامنے دامن پھیلانا پڑے تو کیسا لگے گا؟ کچھ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو کہ گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے اپنے نان کنفرم ٹیچرز کو نوکری سے برخاست کر دیتے ہیں کہ تنخواہ نہ دینی پڑے اور چھٹیوں کے بعد نئے ٹیچرز ہائر کر لیتے ہیں۔دوسرا المیہ اساتذہ کی اپنی کمزوریاں ہیں کہ نہ تو پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ کی کوئی یونین ہے نہ کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہے، جہاں اساتذہ کے حقوق کے لیے کوئی باقاعدہ حکمت عملی وضع کی جائے اور تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس پر عمل کرنے کے پابند بھی ہوں۔ سکول ایک ٹیچر کو فائر کرتے ہیں تو ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اس ایک نوکری کے لیے پچاس اور امیدوار سامنے آجائیں گے۔ جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے وہ آئس برگ کی ٹپ بھی نہیں۔ ان اداروں کے اندرونی تنظیمی ڈھانچے پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سفاکانہ حد تک ناقابل برداشت ہیں۔ ادارہ مالک انکے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کرتا ہے۔ ان پر اپنی مرضی چلاتا ہے انکے حقوق کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جو کہ سراسر غلط ہے اور ان کے ساتھ زیادتی کے ساتھ پیغمبری پیشہ کی توہین ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہی شعبہ ہے جہاں کے بیشتر افراد لکھاری، صحافی، شاعر، مقرر، اسکالر، تحقیق کار ہیں، یہی نہیں بلکہ اور بھی دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں پاکستان میں سرکاری ٹیچرز کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ ہوتا رہتا ہےمگر پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کا مسئلہ بہت گمبھیر ہے۔ نہ انہیں وہ مراعات حاصل ہیں جو حکومتی ملازمین کو حاصل ہیں، نہ ہی ان کو کوئی پلیٹ فارم میسر ہے جہاں ان کے مسائل حل ہوسکیں۔ جو چند ایک این جی اوز ہیں اساتذہ کے حقوق کی دعوے دار، ان کے منتظمین اسکولوں کے منتظم ہیں۔ تو اساتذہ جائیں تو کہاں جائیں؟ اساتذہ کی ان پلیٹ فارمز پر شنوائی نہیں ہوتی اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ میری حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اس معاملے کو باریک بینی سے دیکھا جائے اور ان مسائل کا تدارک کیا جائے۔ اور انکی تنخواہ انکی محنت کے مطابق پوری دی جائے اور انہیں وہ تمام سہولیات دی جائیں جن پہ انکا حق ہے۔