میرا نام باقر وہاب ہے
میں چار جوان ہوتے بچوں کا باپ ہوں میری بیوی نوشابہ سے میری مکمل ارینج میرج ہے ارینج بھی وہ جس میں رشتہ کرانے والیاں رشتہ کرواتی ہیں۔انہی کی زبان سے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔
میری بیوی نوشابہ یوں تو بہت اچھی، پڑھی لکھی،خوبصورت اور خوش مزاج خاتون ہے لیکن اس کی طبیعت میں ایک لاپروائی کا عنصر ہے وہ ساری زمہ داریاں مارے باندھے پوری تو کرتی ہے مگر جو کہہ دو صرف وہ خود سے کسی چیز کی پرواہ اسے زرا کم ہی ہوتی ہے۔
اپنی ازدواجی زندگی کے شروع میں اس لاپراوئی سے مجھے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ میں بھی ایک سمجھوتہ کرنے والا صلح جو انسان تھا خوشحالی تھی تو گھر میں ملازمین تھے باقی اس کے حصے کی کافی زمہ داریاں میں نے اپنے سر لے لی تھیں جیسے رات کو دروازے کنڈے چیک کر کے سونا کہ صحیح سے بند ہیں یا نہیں، کچن کا چکر لگا لینا کہ دودھ یا کوئی سالن فریج سے باہر تو نہیں، گھر کی لائٹیں بجھاتے پھرنا، گروسری میں ہر بار وہ آدھا سامان بھول آتی تو بعد میں مجھے چار پانچ چکر مارکیٹ کے لگواتی کبھی جھنجلاتا مگر چلا جاتا۔
بچے چھوٹے تھے تو اکثر چھٹی کروا لیتی کہ مجھے سستی ہو رہی ہے سکول نہیں بھیج رہی میں اٹھتا اسے زبردستی اٹھاتا بچوں کو تیار کروا دیتا وہ ناشتہ بنا لیتی مل جل کے کافی کچھ نمٹ جاتا۔
لیکن اب بچے بڑے ہو رہے ہیں اور مجھے اچانک بہت سی فکریں ستانے لگی ہیں۔
میں نے گھر کے لیے ایک گاڑی اور ڈرائیور رکھا ہوا ہے میری نوشی کو سختی سے ہدایت ہے کہ ڈرائیور کے ساتھ بچے اکیلے کہیں نہیں بھیجنے جہاں جانا ہو تم ساتھ جاو سکول ہو یا ٹیوشن پک اینڈ ڈراپ میں بھی تم ساتھ ہو۔
میں کاروبار کے سلسلے میں اکثر دوسرے شہر جاتا ہوں تو میرے پیچھے یہ لاپروائی دیکھاتی ہے بچوں کو ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیتی ہے میری بیٹیاں بڑی ہو رہی ہیں میں نے گھر میں اصول بنایا ہے کہ خاندان کا کوئی بھی لڑکا میرا یا نوشی کا بھتیجا بھانجا آزادانہ گھر نہیں آئے جائے گا جو آئے والدین کے ساتھ آئے انہی کے ساتھ بیٹھے، مخلوط سیٹنگ نہیں ہو گی، کہ بچے بچیاں اکھٹے بیٹھیں گپیں لگائیں ہاں لڑکے لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ لیکن نوشابہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میری نوشابہ سے پہلی شدید لڑائی تب ہوئی جب میں کام کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا اور مجھے پتا چلا کہ ڈرائیور چھٹی پہ ہونے کی وجہ سے نوشابہ بیگم نے میری بیٹی جو اس وقت تیرہ سال کی تھی اسے سکول پریکٹیکل کے لیے چھڑوانے کے لیے اپنے بھتیجے کو بلا لیا جو اس سے چار پانچ سال بڑا تھا اور بچی کو کہہ دیا کہ واپسی پہ اپنی کسی دوست کے ساتھ آجانا۔
ایسا نہیں تھا کہ نوشابہ سارا وقت گھر سے باہر رہنے والی عورت تھی یا کیٹی پارٹیز والی یا موبائل میں گھسی رہنے والی لیکن وہ معاملات کو سیریس نہیں لیتی تھی “کچھ نہیں ہوتا” اس کا تکیہ کلام تھا۔
وہ کہتی بچوں پہ اعتماد کریں
میں اسے سمجھاتا کہ اعتماد کا مطلب غفلت نہیں ہوتا۔
ہم بچوں کی کئیر کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں ان پہ اعتماد نہیں لیکن بچوں کو ان کی عمر اور سوچ کے حساب سے اتنی آزادی دو جتنی ضروری ہو۔
میرا ماننا تھا بچوں کو وہاں تک جانے دو جہاں تک ہماری نگاہ جائے جبکہ وہ کہتی بچوں کو کھل کے جینے دیں۔
میں پوچھتا جینے کا مطلب سمجھاؤ تو کہتی انجوائے منٹ۔
میں کہتا خود انجوائے کرواو میں اپنے بچوں کو دبئی، ترکی اور ملائشیا لے گیا پاکستان میں بھی اپنے ساتھ گھماتا وہ کہتی دوستوں کے ساتھ ہوٹلنگ کرنے دوں میں ابھی اس کا قائل نہیں تھا۔
میں اسے کہتا کہ پہلے بچوں کی تربیت کرو انہیں چلنا سیکھاو پھر میدان میں اتارو وہ کہتی میدان میں اتار دو وہاں خود ہی سیکھ جائیں گے۔
میں اس بات سے خوفزدہ ہو جاتا کیونکہ والدین کے سمجھانے اور زمانے کے سمجھانے کے انداز میں بہت فرق ہے زمانے کی سختی کے سامنے ماں باپ کے سختی تو کچھ بھی نہیں۔
میری یہ سوچ کیوں بنی اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ پہلے وہ آپ کو سناتا ہوں۔
عالیہ میری ممانی کی بھانجی تھی۔
جو اکثر و بیشتر میرے ماموں اور اپنی خالہ کے یہاں پائی جاتی ماموں کی بیٹیاں اس کی ہم عمر تھیں نانی کے گھر ہم سارے بچے اکھٹے ہوتے تو وہ بھی ہوتی ہم سارے بچے اکھٹے کھیلتے لیکن میں شروع سے محسوس کرتا کہ وہ مجھ سے باقی بچیوں کی نسبت زیادہ فری ہوتی اور الگ سا احساس دلاتی۔ ہمارے گھروں میں بچوں کو کافی عمر تک بچہ سمجھا جاتا تھا گھروں میں آزادانہ آنا جانا، پچھلے صحن میں ایک ساتھ کھیلنا، ہم سب ایک ساتھ ہی لڑکپن میں داخل ہوئے۔
ہم جب ماموں کے گھر جاتے اور وہ آئی ہوتی تو فوری متوجہ ہوتی مجھے سب پیار سے باقی کہتے وہ جان جان کے زور دے دے کے “باقی” کہتی ایک دن میں کالج کی پارٹی میں جا رہا تھا ماموں کا بیٹا جو ساتھ پڑھتا تھا اسے لینے گیا تو عالیہ آئی ہوئی تھی مجھے تیار شیار دیکھ کے ایک دم قریب آ کے کہنے لگی آج تو بہت اچھے لگ رہے ہو یہ پنک کلر کی شرٹ تم پہ بہت جچ رہی ہے اس کے بعد تو یہ اس کا مزاج بن گیا جب جاتا وہ میری ڈریسنگ پہ تبصرہ کرتی کسی کو اچھا کہتی کسی کو کہتی اوں ہوں یہ رنگ تمہارے لیے نہیں۔ میں بھی ان تبصروں کا عادی ہوتا گیا لطف لینے کو آئے دن تیار شیار ہو کے جانے لگا خدا جانتا ہے میرے دل میں کوئی بات نہیں تھی۔
حیرت والی بات یہ تھی کہ وہ یہ سب گھر والوں کے سامنے کہتی اور کوئی اسے نا ٹوکتا میں بھی سمجھنے لگا یہ سب نارمل ہے۔
ایک دن کہنے لگی مجھے اکاونٹنک کا فلاں ٹاپک سمجھ نہیں آرہا وہ سمجھا دو میں آئی کام icom کر چکا تھا وہ کر رہی تھی ممانی کی بہن کہنے لگیں ہاں بھئی سمجھا دو اب کہاں اسے ٹیوشن پہ بھیجیں۔
بات اکاونٹنگ سے شروع ہوئی اور پھر ہم روز ملنے لگے یہ ملنا ماموں کے گھر ہوتا وہ پڑھتی کم مجھ پہ تبصرے اور باتیں زیادہ کرتی میں بھی انجوائے کرتا میں نے کبھی اس کی آنکھوں، بالوں، کپڑوں کی تعریف نہیں کی جرت ہی نہیں ہوئی وہ بال کھول کے مجھ سے پڑھتی کسی کو اعتراض نا ہوتا میں دیکھتا مجھے اچھا لگتا مگر کبھی زبان سے نہیں کہا میں بس اس کی تعریفیں اپنے لیے سنتا اور خوش ہوتا۔
اس نے میرا فون نمبر لے لیا اس وقت گھروں میں صرف پی ٹی سی ایل ہوتا وہ مجھے کہتی میں رات نو بجے کے بعد دو رنگز دوں گی تم کال بیک کرنا میں اسے سب کے سونے کے بعد چوری چھپے کال کرتا اور ہم دو دو گھنٹے بات کرتے۔
نتیجے کے طور پہ دو بم ایک ساتھ پھٹے ایک تو میری بی کام میں چار سپلیاں آئیں دوسرا ٹیلی فون کا بل پکڑا گیا جس میں عالیہ کے گھر کی روزانہ کی دو دو گھنٹے کی کالز کی تفصیلات تھیں۔
گھر والوں نے پوچھا ڈانٹا ڈپٹا غصہ فیل ہونے کا زیادہ تھا میں نے بھی سوچا بہت وقت ضائع کر لیا اب پڑھائی پہ توجہ دوں میں نے یہ بات عالیہ کو کہی اور کہا کہ اب ہم روز بات نہیں کریں گے مجھے امتحان دے لینے دو۔ لیکن وہ نہیں مانی روز مجھے مسڈ کال دیتی میں بھی اس بار رزلٹ سے شرمندہ تھا ڈھیٹ بن گیا کال بیک نہیں کی۔
جس دن آخری پرچہ تھا مسڈ کال کے بجائے کال آگئی کہ کل آخری پرچہ دو اور کالج کے سامنے فلاں جوس پوائنٹ پہ ملیں گے یہاں سے ملنے کا سلسلہ بھی چل نکلا میں صرف وہ کر رہا تھا جو وہ کہہ رہی تھی میں اسے اس کے کالج سے پک کرتا اور ہم کہیں نا کہیں جوس پیتے یا ائس کریم کھاتے اور میں اسے اس کے گھر کے بس سٹاپ پہ ڈراپ کر دیتا۔
میں نے بی کام کے بعد اپنے ابو کا کاروبار سنبھال لیا اس کا ایک آرمی افسر کا رشتہ آگیا اس کی امی اور ابو دل و جان سے چاہتے تھے کہ اس کا رشتہ آرمی آفیسر سے ہو مجھے پتہ چلا تو میں اس کے سر ہو گیا کہ انکار کرو میں اپنے ماں باپ کو بھیجتا ہوں اس نے انکار تو کیا لیکن سارا مدعا مجھ پہ ڈال دیا کہ میں اسے ایسا کرنے کا کہہ رہا ہوں میرا اس سے افئیر ہے اور جب باتیں کھلیں تو سب کا سب الزام میرے سر اور گواہیاں موجود تھیں کہ میں اسے روز کال کرتا ہوں میں اسے روز کالج سے پک کر کے جوس پینے لے جاتا ہوں۔
اچانک ہی ہم دونوں کے گھرانوں کی غیرت جاگ گئی اور سب کا نشانہ میں بنا اس کی سزا کے طور پہ اسی آرمی افیسر سے شادی کر دی گئی وہ شادی ہو کے مزے سے کوئٹہ چلی گئی اور مجھ پہ خاندان کے ہر فرد نے مقدور بھر لعنت بھیجی اور اپنے گھر گھسنے پہ پابندی لگا دی۔
یہاں تک کہ خاندان میں کوئی رشتہ دینے پہ تیار نہیں ہوا۔
میں آج آپ سب سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ میں بے قصور نہیں تھا مگر کیا سارا کا سار قصور میرا تھا۔۔۔۔۔۔؟
کیونکہ میں لڑکا تھا تو سوچ لیا گیا کہ میں نے لڑکی کو ورغلایا۔
میرے کیس میں تو مجھے ورغلایا گیا میں بھی بچہ نہیں تھا مگر بہکا۔
تو کیا ہمارے والدین بچے تھے۔….؟ جن کی ناک کے نیچے سب نو عمر بچے آزادانہ ملتے باتیں کرتے ہنسی مذاق کرتے کیا ہماری مائیں اتنی نا سمجھ تھیں کہ اپنے بچوں کے چہروں کی چمک پہچان نا سکیں اور اپنے والدین سے زیادہ عالیہ کہ والدہ اور میری ممانی جن کے گھر ہی ہم ہمیشہ ملے میرے گھر وہ کبھی نہیں آئی کیا وہ خواتین ناسمجھ تھیں۔…..؟
پھر سارا مدعا مجھ پہ کیوں پڑا۔۔۔۔۔؟
اور اب اگر میں اپنی بیوی نوشابہ کی لاپروائی پہ اعتراض کرتا ہوں تو کیا یہ غلط ہے۔…….؟
کیا بچوں کی انجوائے منٹ اور آزادی کی حدود متعین کرنا دقیانوسیت ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا ایسا کرنے والدین بچوں کی خوشیاں غصب کرنے والے ہیں۔۔۔