قاعدے، ضابطے، اصول اور قانون کا معاملہ یہ ہے کہ ہم کسی اندرونی محرک کے بغیر انہیں قبول کر سکتے ہیں تاکہ سماجی ہم آہنگی برقرار رہے، لیکن کسی بھی قدر (value) کو فرد صرف اسی صورت قبول کرتا ہے جب اس کی اندرونی شخصیت اس سے مکمل متفق ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اصول یا ضابطہ انسان کے سماجی یا اندرونی محرکات کو محدود کرنے کا نام ہے، انسانی رویوں کے سامنے بند باندھنا ہے، جب
کہ اقدار ان محرکات، ان رویوں کو وسعت بخشتی ہیں ۔
اسی طرح خواہش یا مطالبے کو بھی قدر نہیں کہا جا سکتا، خواہش یا مطالبہ کسی اندرونی (بالخصوص مادی) کمی کو پورا کرنے کا نام ہے مثلآ بھوک جنس وغیرہ، یہ چیز ہر جاندار میں موجود ہے، لیکن قدر، جو انسانوں کو دوسرے جاندار سے ممتاز کرتی ہے، یہ پرکھنا ہے کہ کیا اس خواہش یا مطالبے کا پورا کیا جانا لازم ہے؟
قدر انسانی وقار کے قد کو بڑھانے کا نام ہے، گویا یہ ایک پُل ہے جو ہماری بیرونی دنیا کو اندرونی شخصیت سے ایسے ملاتا ہے کہ اندرونی شخصیت پوری شان و شوکت سے اپنا سماجی، تخلیقی اور نفسیاتی اظہار کر سکے۔
یہاں روایات اور اقدار میں بھی کنفیوژن رہتی ہے، جیسا دیس ویسا بھیس والا محاورہ شاید اقدار کی نسبت روایات پر زیادہ ٹھیک بیٹھتا ہے، جیسے مہمان نوازی ایک روایت ہے نہ کہ قدر ، اقدار انفرادی بھی ہو سکتی ہیں لیکن ان کی اکثریت اجتماعی ہے، جیسے self realization کا تصور انفرادی قدر ہے، اور یہ جدید ہے، قدیم دور میں اس کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔
یہاں یہ غلط فہمی نہیں رہنی چاہئے کہ مقاصد ہماری اقدار کا تعین کرتے ہیں، معاملہ اس کے متضاد ہے، یہ اقدار ہیں جو ہمارے مقاصد کا تعین کرتی ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ اقدار آتی کہاں سے ہیں، اور کن انسٹرومنٹس کی مدد سے ہم انہیں قبول یا رد کرتے ہیں؟
تین ہزار سال قبل کی دنیا بالکل مختلف تھی، ہم سمجھنے کیلئے اس دنیا کی اقدار کو افقی خط(horizontal )کی صورت تصور کر سکتے ہیں، یعنی انسان ،جانور ، کائنات، روحیں، خدا اور تمام مرئی و غیر مرئی وجود ایک ہی سطح پر واقع ہیں، یہ درخت ہے تو یہ سامنے بزرگ کی روح قیام پزیر ہے، یہ بھیڑ گھاس چر رہی ہے تو خداؤں کی موجودگی اسی گھاس پہ رقص کناں ہے، گویا کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں ہیں۔
جرمنی کے مفکر کارل جیسپرس کا کہنا ہے کہ 800 قبل مسیح سے 200 قبل مسیح کے درمیان دنیا میں بیک وقت ایسی جوہری تبدیلی آئی کہ جس نے اقدار کی عمارت کو افقی سے عمودی(vertical )میں بدل دیا، ان کے مطابق ان چھ صدیوں میں دنیا کے ہر گوشے سے یک لخت آفاقی فکر نمودار ہوئی اور آئندہ دو ہزار سال کیلئے اقدار کا مصدر یہی آفاقی فکر ٹھہری، مشرق وسطی میں انبیائے یہود کا پے درپے ظہور، ہندوستان میں مہاتما بدھ ، یورپ میں یونانی فلسفی و مفکرین ، چین میں کنفیوشس، فارس میں زرتشت کی تعلیمات نے اقدار کی بنیاد کو اس آفاقی فکر سے جوڑا جو یا تو خدائے بزرگ کی طرف سے تعلیم فرمائی گئی ، یا پھر مفکر نے کائناتی لاشعور سے کشید کرتے ہوئے انسانوں تک پہنچائی، دونوں صورتوں میں یہ فکر آفاقی ہے، دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان خطوں میں بغیر کسی باہمی تہذیب یا میل جول کے آفاقی فکر تقریبآ ایک ہی وقت میں نمودار ہوئی اور انسانیت کو اپنے حصار میں لے لیا، کارل جیسپرس نے اس دور کو Axile age کا نام دیا ہے، جدید مفکرین کا خیال ہے کہ Axile age کا یہ دورانیہ کامل نہیں ہے، چھ صدیاں اس کا صرف پہلا حصہ ہے، دوسرا حصہ جنابِ مسیح کی پیدائش سے پیغمبرِ اسلام کی وفات تک کا ہے، کیونکہ عیسائیت اور اسلام کے آئیڈیاز اقدار کے معاملے میں مؤثر ترین رہے ہیں کہ دنیا کی بھاری اکثریت اپنے اقدار میں انہی دو افکار پہ کھڑی ہے. Axile age نے اقدار کی عمارت کو عمود یوں دیا کہ اب ایک روحانی یا فکری اشرافیہ ہے جو عام انسان اور آفاقی فکر کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے، یعنی تعلیم و تفسیر کا منبع ہے، اب آفاقی فکر اپنے اپنے مفسرین کی بدولت عام انسانوں کی اقدار طے کرے گی، یہ سلسلہ تقریبآ اٹھارویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔
اٹھارہویں صدی کے انسان نے اقدار کو اس عمودی پوزیشن سے واپس افقی خط پہ لانے کی کوشش کی، اب وہ اقدار کو کسی آفاقی فکر میں ڈھونڈھنے کی بجائے انسانی عقل سے کشید کرنا چاہتا ہے، یہاں انسانی عقل سے مراد ، علمی بحث، ڈائیلاگ، نفسیات، روایات اور سماجی تجربہ ہیں جن کے اتحاد سے کسی متفہ فیصلے پر پہنچتے ہوئے انسانوں کے درمیان کوئی “زمینی ” قدر قائم کی جا سکتی ہے، یہ کوشش آج تک جاری ہے لیکن پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائی کہ اس کے خلاف آفاقی فکر بڑی زورآور ہے ، گلوبلائزیشن کا فلسفہ پوری طرح کامیاب اس لئے نہیں ہو پا رہا کہ مشترکہ اقدار پہ اتفاق ایک مشکل امر ہے۔
اقدار کے پیمانے طے کرنے کی کوشش میں آفاقی اور زمینی فکر کی مڈبھیڑ کو دیکھتے ہوئے انہی دو صدیوں کے دوران نئی فکر کو رائج کرنے کی کوشش کی گئی جو زمینی تو نہیں لیکن مکمل آفاقی بھی نہیں، اسے ” آفاقی نما” کہا جا سکتا ہے، کیمونزم، سوشلزم اور فاشزم وغیرہ اسی “آفاقی نما” فکر کی علمبردار ہیں، لیکن یہ فکر ناکام اس لئے ہوئی کہ نہ تو قدم رکھنے کیلئے پختہ زمین میسر تھی کہ انسانوں کے مابین سماجی تجربے کو یہ کوئی اہمیت نہیں دیتی اور نہ ہی افق سے کوئی رہنمائی لی جا سکی کہ آسمانی طاقتوں کی موجودگی سے یہ فکر منکر نظر آتی ہے ۔
اقدار کی یہ آمد اجتماعی ہے یعنی تمام انسانوں کیلئے ، اسکے بعد اگلا سوال یہ ہے کہ فرد ان میں کونسی اقدار کا انتخاب کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے ؟ کونسا ایسا دروازہ ہے جہاں سے جھانکتے ہوئے فرد اقدار کو دیکھ سکتا ہے، انہیں منتخب کر سکتا ہے، کونسے انسٹرومنٹس اس کیلئے استعمال کئے جا سکتے ہیں؟
ایک رائے ہے کہ اس کا تعلق انسانی جزبات سے ہے، احساسات اور جذبات ہی طے کرتے ہیں کہ اقدار کیا ہیں اور کونسی اقدار سماج کیلئے قابلِ قبول اور مؤثر ہیں، یہ رائے کمزور اس لئے ہے کہ جزبات اور احساسات خالصتاً سبجیکٹیو ہوتے ہیں، ایسے میں ہر شخص کی اپنی اقدار سامنے آئیں گی، ایک دوسرے سے مختلف ، یعنی کہ سماج کے دو افراد اگر فرائض اور حقوق کی تعریف پر ہی متفق نہ ہو سکیں تو سماج آگے نہیں بڑھ سکتا۔
لیکن جذبات کو اقدار سے مکمل آزاد کرنا ممکن نہیں کیونکہ اخلاقی احساسات کہیں نہ کہیں اقدار کو ضرور جنم دیتے ہیں، مثلآ ایک شخص اگر اپنے پالتو جانور کو مار رہا ہے، اس پہ ظلم کر رہا ہے تو آپ اس کا ہاتھ اس لئے نہیں روکیں گے کہ آپ کے پاس اس کے چند عقلی دلائل موجود ہیں، بس آپ محسوس کرتے ہیں کہ بے زبان جانور کو مارنا ظلم ہے، ایسے جزبات مخصوص اقدار کو جنم دے سکتے ہیں، اس لئے اس رائے میں حق کا ایک پہلو ضرور موجود ہے۔ برٹرینڈ رسل بھی یہی کہتے تھے کہ نیلے اور پیلے رنگ میں تفریق کیلئے میرا ان رنگوں کو آنکھ سے دیکھ لینا ہی کافی ہے، اس کیلئے مجھے کسی فلسفے یا منطق کی ضرورت نہیں ۔
ایمانوئیل کانٹ کے نزدیک اقدار کے انتخاب میں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیئے کہ جو اقدار میں اپنے لئے منتخب کرنا چاہتا ہوں، کیا انسانوں کی بڑی اکثریت ان اقدار پہ متفق ہو جائے گی؟ اگر جواب مثبت آئے تو یہ اقدار حقیقی ہوں گی اور انہی کا انتخاب کیا جانا چاہئے ، اور یہ انتخاب خالصتاً عقل کی بنیاد پر ممکن ہے، جزبات چونکہ سبجیکٹیو ہیں تو دھوکہ ہو سکتا ہے، لہذا عقل ہی حقیقی اقدار کو طے کرے گی۔
تیسری رائے کے مطابق اقدار کا انتخاب ارتقائی بنیاد پر کیا جاتا ہے، یعنی فرد کیلئے جو بھی قدر بقاء میں مددگار ہوگی، فرد شعوری یا لاشعوری طور پر اسی کا انتخاب کرے گا، اس کیلئے جزبات یا عقل ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، بقاء کی جبلت حاوی رہے گی ۔
ہر شخص میں اقدار کی درجہ بندی ہوتی ہے، عموماً ایک یا کبھی ایک سے زیادہ اقدار مرکزی یا بنیادی ہو سکتی ہیں، زیادہ تر اقدار جانبی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اقدار کو کئی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے، جیسے مذہبی اقدار، تقافتی ، روایتی، اخلاقی وغیرہ ۔ فرد مرکزی قدر کا کبھی کسی چیز سے تبادلہ یا سودا نہیں کرتا ، جانبی اقدار پر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے اور یہ وقت کے ساتھ بدلتی بھی رہتی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانوں کی بھاری اکثریت تمام عمر اپنی مرکزی قدر سے واقف نہیں ہوتی۔