حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
دنیا کی چار بہترین عورتوں میں سے ایک جن کے القاب بے شمار، یعنی وہ طاہرہ بھی سیدۃ نساء قریش اور قریش کی شہزادی بھی.
نام: خدیجہ
کنیت : ام ہند
لقب: طاہرہ
والد کا نام خویلد بن اسد اور والدہ کا نام فاطمہ بنت زید. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش عام الفیل سے پندرہ برس قبل ہوئی تھی . آپ تین بھائی اور دو بہنیں تھیں.
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک معزز، مالدار اعلیٰ نسب خاتون، جن کا تعلق عرب کے نامی گرامی قبیلے قریش سے تھا. آپ کی پہلی شادی ابو ہالہ ہند بن بناش بن تمیم سے ہوئی اور ان کے انتقال کے بعد دوسری شادی عتیق بن عابد مخزوم سے ہوئی.
حضرت خدیجہ تجارت کے پیشے سے وابستہ تھیں اور اپنا سامانِ تجارت معقول معاوضہ پر بھروسے کے شخص کے حوالے کرتیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو لوگوں کا سامان تجارت شام لے جایا کرتے تھے، ان کی شہرت مکہ میں ” امین ” کے لقب سے تھی. آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے حسن معاملت، راست گوئی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاق کا پورا مکہ گواہ و گرویدہ تھا. جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تک یہ شہرت پہنچی تو انہوں نے اپنا سامانِ تجارت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کیا اور ساتھ ہی اپنے خادمِ خاص میسرہ کو بھی سامان کی دیکھ رکھ کے لیے بھیج دیا.
سفرِ شام سے واپسی پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توقع سے زیادہ منافع کما کر دیا. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و فہم نے حضرت خدیجہ کو زندگی کا بڑا فیصلہ لینے پر مجبور کیا.
حضرت خدیجہ ایسی خاتون تھیں جو ہر صاحب دل کو مطلوب مگر انہوں نے جن کو اپنا شریکِ سفر چنا وہ اس کائنات ہی کے نہیں بلکہ مالک دو عالم کے بھی چنیدہ و پسندیدہ. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ جو بہترین اوصاف سے مزین اور حسن و جمال سے آراستہ مکہ کی نہایت متمول خاتون تھیں. ان کے حضور مکے کے تین نامی گرامی سردار، ابو جہل، ابو سفیان اور عتبہ بن ابی معید اپنا رشتہ بھجوا کر اور جواب میں معذرت سن کر کفِ افسوس مل چکے تھے.
اس طاہرہ کی نظرِ انتخاب ٹھہری احمد پر جو بلاشبہ کائنات میں انتخاب کہ مدح سرا خود رب کائنات. حضرت خدیجہ نے اپنی دوست نفیسہ بنت مینہ کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھجوایا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بزرگوں کی مشاورت سے قبول کر لیا.
تاریخِ معین پر ابو طالب اور تمام رؤسائے خاندان، حضرت خدیجہ کے گھر آئے جہاں ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھایا. حضرت خدیجہ کا مہر بیس اونٹ تھا. نکاح بعثت سے پندرہ سال قبل ہوا تھا.
شادی کے بعد حضرت خدیجہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو بتایا کہ ان کے اخلاق و کردار نے انہیں متاثر و گرویدہ کیا. اس جوڑے نے بہت پر محبت اور زندگی کے مثالی پچیس سال ایک دوسرے کی سنگت میں بسر کیے .
نبوت سے پہلے جب آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا غارِ حرا میں تنہائی کا دورانیہ بہت بڑھ گیا تھا تو اس واقعہ کو لیکر مکہ کی عورتوں میں بہت چہ می گوئیاں تھی اور وہ حضرت خدیجہ پر طعنہ زن بھی مگر آپ سب سے بے پروا اپنے محبوب کی چاہت پر ثابت قدم بلکہ اکثر اوقات آپ خود نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے لیے کھانا اور ضرورت کی دوسری اشیاء لیکر پہاڑ کا تکلیف دہ سفر صرف اس لیے اختیار کرتیں کہ دیدار سے آنکھوں کی پیاس بجھا سکیں.
پہلی وحی کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی طبیعت میں جو اضطرار، ہیجان اور دہشت تھی اس کا مداوا حضرت خدیجہ کے تسلی بھرے الفاظ ہی تو تھے.
جب حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم پہلی وحی کے بعد بہ حالت خوف و اضطراب گھر آئے اور کہا “مجھے اوڑھا دو، مجھے اوڑھا دو.”
اس لمحے حضرت خدیجہ کی بانہیں ان کا سہارا تھیں. جب آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی طبیعت میں ٹھہراؤ آیا تو پہلا سوال یہی کیا کہ
او خدیجہ! میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟
جس کو میں سوتے میں خوابوں میں دیکھا کرتا تھا اسے میں نے غار میں دیکھا، مجھ پر جادو تو نہیں ہو گیا؟
حضرت خدیجہ کا ترنت جواب آیا کہ
” نہیں یہ تو بشارت ہے، اداس مت
ہوں. ” میں قسم کھا کے کہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو رسوا نہیں کرے گا
کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم صلہ رحمی کرتے ہیں .
سچ بولتے ہیں اور امانت دار ہیں.
درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں.
تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں
مہمان کی میزبانی کرتے ہیں.
حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں.
سبحان اللہ کیا مزاج فہمی اور دل جوئی تھی.
حضرت خدیجہ صحیح معنوں میں رفیق حیات تھیں اور انہوں نے اپنا تن، من، دھن سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر وار دیا تھا. وہ ہمیشہ کی فیاض تھیں اور ان کے گھر کی چھت پر سبز شامیانہ اس بات کی علامت تھا کہ فقراء و مساکین بےڈھڑک وہاں آئیں اور ان کی سخاوت سے فیض یاب ہوں. شادی کے بعد جب حضرت خدیجہ کی ملاقات بی بی حلیمہ سعدیہ سے ہوئی اور آپ نے اپنے محبوب کے رویے میں ان کے لیے محبت اور اکرام کو موجزن پایا تو حلیمہ سعدیہ پر نوازشات کی انتہا کر دی.
سورہ مدثر کے نزول کے بعد سب سے پہلے اللہ واحد پر ایمان لانے والی آپ. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ پہلوں میں پہلی،
پہلا وضو، پہلی عبادت، پہلا طواف، پہلی زوجہ، امت کی پہلی ماں، جنت کی پہلی بشارت آپ کے لیے اور سب سے بڑا اعزاز کہ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام بھجوایا.
حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو اولاد کی خوشی آپ سے ملی. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ اولادیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئیں.
القاسم بن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زینب بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عبداللہ بن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رقیہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ام کلثوم بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ.
آپ دونوں کا ربع صدی کا ساتھ محبت، اخلاص اور قربانی سے مزین تھا جس میں لمحہ بھر کی بھی شکر رنجی نہیں. دونوں ایک دوسرے کے والا و شیدا و مزاج آشنا .
سنہ 7 نبوی تک جب قریش اسلام کو تباہ کرنے کی تمام کوششوں میں ناکام ٹھہرے تو بالآخر یہ گھٹیا تدبیر سوچی گئ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خاندان کو ایک گھاٹی میں محصور کیا جائے چنانچہ ابو طالب نے مجبور ہو کر تمام خاندان قریش کے ساتھ شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہوئے. تین اذیت ناک سال بنو ہاشم نے اس حصار میں بسر کیے. یہ ایسا سخت زمانہ تھا کہ بنو ہاشم طلح کے پتے کھا کر گزارا کرتے تھے. کبھی کبھار کوئی ہمدرد اشیاء خورد و نوش سے لدا اونٹ گھاٹی کی طرف ہانک دیا کرتا تھا. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام نے بھی اپنی پھوپھی کی محبت میں اونٹ گھاٹی کی طرف روانہ کیے تھے.
شعب ابی طالب کی گھاٹی کے پر آشوب دور میں بھی حضرت خدیجہ لمحہ بہ لمحہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ رہیں مگر کچھ عمر کا تقاضا اور کچھ حالات کی سخت گرانی سو آپ بہت کمزور اور بیمار رہنے لگیں اور شعب آبی طالب کے پر آشوب دور کے چھ ماہ بعد ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں.
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال گیارہ رمضان سنہ دس نبوی کو اُسی گھاٹی میں بڑھاپے میں فاقے اور دیگر صعوبتوں کو جھیلتے ہوئے ساڑھے چونسٹھ سال کی عمر میں ہوا.
اس وقت نماز جنازہ مشروع نہ تھی اس لیے ان کا جسدِ مبارک اسی طرح دفن کر دیا گیا. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی خیرخواہ و غم گسار کو داعی اجل کے سپرد کیا. حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حجون قبرستان میں مدفون ہیں.
انا للہ وانا الیہ راجعون
ان کی جدائی میں حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم رات رات بھر گریاں کناں رہتے اور اس حد تک آزردہ کہ ساتھیوں کو آپ کی جان کی تشویش لاحق ہو گئی .
حضرت خدیجہ کے وصال کے بعد آپ تیرہ سال جئے اور بقول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہ کوئی دن ایسا نہ جاتا جب آپ حضرت خدیجہ کو یاد نہ کرتے. آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم ان کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے . جب بھی جانور ذبح ہوتا اس گوشت میں حضرت خدیجہ کی دوستوں کا حصہ لازمی ہوتا. جب کبھی حضرت ہالہ (حضرت خدیجہ کی بہن) مدینہ آتیں آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم خوشی سے کھل جاتے اور دونوں گھنٹوں حضرت خدیجہ کی باتیں دہراتے. بقول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے انہوں نے رشک صرف حضرت خدیجہ پہ کیا. ایک دفعہ غیرت کھا کر حضرت عائشہ نے حضرت خدیجہ کے لیے کچھ سخت الفاظ استعمال کر لیے اور وہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ
خدا کی قسم! خدیجہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے، اس نے مجھے اس وقت پناہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کر دیا تھا اور اس نے ایسے موقع پر میری تصدیق کی جب لوگ جھٹلا رہے تھے.
فتح مکہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے کعبہ کو بتوں سے پاک کر دیا اور استراحت کا ارادہ فرمایا تو ہر شخص، کیا سردار اور کیا عام انسان آپ کی میزبانی کا متمنی تھا. مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم خیمہ زن ہوئے حضرت خدیجہ کی قبر مبارک کے پہلو میں. کیسی عدیم المثال محبت اور کیا تکریم تھی محبوب کی. حضور صلی اللہ علیہ والہ و حضرت خدیجہ کی محبت کو اپنے لیے اللہ تعالیٰ تحفہ خاص اور فضل کہا کرتے تھے.
ساری خدائی اس ایک اقرار محبت کے آگے قربان.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر عرض گزار ہوئے، یا رسول اللہ!! یہ خدیجہ ہیں جو ایک برتن لے کر آ رہی ہیں، جس میں سالن اور کھانے پینے کی چیزیں ہیں. جب یہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام کہیے گا اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دیجیے، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ ہی کوئی تکلیف ہو گی.
-یہ حدیث مبارک متفق علیہ ہے.