Headlines

خواجہ سرا سے مینجر ڈائریکٹر تک۔ عاملیہ فلک

Spread the love

 

خواجہ سرا سے مینجر ڈائریکٹر تک۔ 

میرا نام سمیر ہے میں نہ تو مرد ہوں نہ عورت ۔۔۔لوگ مجھے ٹرانسجینڈر کہتے ہیں ۔۔۔۔۔خواجہ سرا۔۔۔۔۔۔
میرے ابا تو تب فوت ہو گئے جب میں 10 سال کا تھا ۔۔۔۔
میرا جسم تو لڑکوں سا تھا لیکن میرا من لڑکیوں سا۔۔۔۔مجھے لڑکیوں کی طرح سجنا سنورنا اچھا لگتا تھا ۔۔۔مجھے لڑکیوں کے کپڑے پہننا اچھا لگتا تھا ۔۔۔۔
میری امی سکول ٹیچر تھیں۔۔۔۔جب ان کو پتہ چلا میرا ایک ہی بیٹا ہے ۔۔۔۔اور وہ بھی خواجہ سرا۔۔۔وہ بہت پریشان ہوئی۔۔۔لیکن وہ مجھے کچھ نہیں کہتی تھیں ۔۔۔
میں لپ اسٹک لگایا کرتا تھا۔۔۔۔مجھے سر پہ دوپٹہ اوڑھنا اچھا لگتا تھا۔۔۔۔۔پھر آہستہ آہستہ  ۔.۔۔پورے محلے کو پتہ چل گیا میں ایک خواجہ سرا ہوں ۔۔۔۔۔
امی مجھے پڑھانا چاہتی تھیں ۔۔۔۔امی مجھے بہت پیار سے سمجھایا کرتی تھی بیٹا یہ لوگ معاشرہ  بہت غلط ہے ۔۔۔۔اگر جینا چاہتے ہو تو ۔۔۔اچھا انسان  بن کر جیو۔۔۔لوگوں کا سامنا کرنا سیکھنا ہوگا۔میں ہمیشہ سے ایک اچھا انسان بننا چاہتا تھا ۔۔۔ایک بڑا آفیسر ۔۔۔میں دل لگا کر پڑھائی کرتا۔۔۔میری دو بہنیں تھیں ۔۔۔میں اکیلا ہی بھائی تھا۔۔۔۔یوں کہہ لیں نہ بھائی نہ بہن۔۔۔۔۔
سکول میں میرا مذاق بنایا جاتا.۔۔۔میں کیا کرتا ..۔میرا لہجہ لڑکیوں سا تھا۔۔۔
میں بہت روتا تھا ۔۔لیکن امی میرا سہارا تھی ۔۔۔
وہ مجھے سمجھایا کرتی.۔۔بیٹا ۔۔۔ایسے بہت سے مقام آئیں گے زندگی میں ۔۔۔تم کو کبھی ہارنا نہیں ہے۔۔۔۔
میں سکول سے کالج چلا گیا۔۔۔۔وہاں میرے لیئے اور بھی مشکالات بڑھ گئیں ۔۔اللہ پاک نے مجھے بہت خوبصورت بنایا ہے۔۔۔کالج کے لڑکے مجھے تنگ کرنے لگے۔۔۔.میں برداشت کرتا رہا۔۔۔۔۔اذیت کے دن گزرے یونورسٹی چلا گیا۔۔۔۔
میں سافٹ ویئر انجنیئر  بن گیا۔۔۔۔
بہت خوش تھا۔۔۔۔میں لوگوں کو زندگی سکھانا چاہتا تھا۔۔۔میں لوگوں کو محبت کرنا سکھانا چاہتا تھا۔۔۔
میں رشتوں کو نبھانے کی بات کرنا چاہتا تھا ۔۔۔میں جہالت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔۔۔میں دین بھی سیکھا ۔۔۔میں چاہتا تھا اپنے ملک کے لیئے کچھ کر جاوں۔۔۔
جب پڑھائی مکمل ہو گئی۔۔۔۔پھر میں جاب کی تلاش کرنے لگا.۔۔۔
میں نے سب سے پہلے پولیس میں اپلائی کیا۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔۔افسوس مجھے قبول نہ کیا گیا۔مجھے خواجہ سرا کہہ کر نکال دیا گیا۔۔۔
میں نے بہت سے اداروں میں کوشش کی لیکن مجھے سب عجیب طریقے سے ٹریٹ کرتے ۔۔لوگ اپنی اپنی مرضی سے میرا نام بلاتے۔۔۔کوئی کہتا بلو رانی ۔۔ تو کوئی چھمک چھلو۔۔۔جیسے نام دیتا مجھے۔۔۔
میں خاموش ہو جاتا۔۔۔۔۔
امی کی سکول سے سروس پوری ہوئی۔۔۔جو پینشن ملی۔۔۔دونوں بہنوں کی شادی کر دی۔۔۔
میں اتنا پڑھ کر بھی خوار ہو رہا تھا ۔۔۔
کیوں کے لوگ مجھے صرف ایک ناچنے والا خواجہ سرا سمجھتے تھے۔۔۔
میں نے محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا چاہی۔۔۔لیکن کوئی بھی اپنے بچوں کو میرے پاس پڑھانے کے لیئے تیار نہ تھا۔۔۔
میں کیا کرتا ۔۔۔۔میرا قصور کیا تھا .۔۔۔یہ سب تو اللہ پاک نے بنایا ہے نا۔۔۔۔۔میں کہاں غلط تھا۔۔۔
امی بیمار رہنے لگی۔۔۔۔میں نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگا ۔۔۔
بہت سے لڑکے میرے ساتھ دوستی کرنا چاہتے تھے ۔۔۔اور بہت سے غلط تعلقات بنانا چاہتے تھے۔۔۔۔
میں تن سے خواجہ سرا تھا  من سے ایک اچھا انسان۔۔۔میں ہر جھگڑا کرنے والے کو سمجھاتا۔۔.پیار کا درس دیتا ۔۔۔۔شاید لوگ میری باتوں کو مذاق سمجھتے ۔۔۔
میں لوگوں کو بتاتا اپنا ضمیر بریانی کی پلیٹ پہ نہ بیچ دیا کرو ۔۔۔ایک باشعور قوم بنو۔۔۔
لیکن میری بات بے معنی ہوتی۔۔۔
پھر ایک دن ۔۔۔۔مجھے کچھ لڑکوں نے اغوا کر لیا۔۔۔
میری آنکھوں میں آنسو نہیں خون ہے۔۔۔۔
میں مغرب کی نماز پڑھ کر گھر آ رہا تھا ۔۔۔۔مجھے اغوا کر لیا گیا۔۔۔۔
وہ لڑکے میرے گاؤں کے تھے  ساتھ کوئی اجنبی لڑکے بھی تھے۔۔۔
مجھے گن دکھا ڈرایا گیا۔۔۔۔پھر مجھے کہنے لگے ۔۔۔چل بلو رانی ڈانس کر۔۔۔۔۔
میں سافٹ ویئر انجنیئر ۔۔۔۔پڑھا لکھا ۔۔۔۔ان سے کہنے لگا پلیز میں ایسا نہیں ہوں مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔
ایک آگے بڑھا مجھے تھپڑ مار دیا ۔۔۔گالی دے کر بولا ناچ ورنہ بہت برا حال کروں گا۔۔۔۔
میرے ساتھ زبردستی کی۔۔مجھے زیادتی کا نشانہ بنایا۔۔۔۔
میں چیختا چلاتا رہا..۔.آخر ۔۔۔میں اس معاشرے کا نشانہ بن گیا ۔۔۔
مجھے میرے گھر کے سامنے پھینک گئے۔۔۔۔میں رو رہا تھا ۔۔۔گھر آیا ۔۔۔امی کو آواز دی۔۔۔۔
لیکن کب جانتا تھا ایک اور قیامت میری منتظر ہے۔۔۔
امی کے پاس پہنچا ۔۔۔امی سو رہی تھی۔۔۔
جب امی کو بار بار آواز دی۔۔۔امی نے آنکھ نہ کھولی…
میرا دل گھبرانے لگا۔۔۔۔
پھر جب میری چیخیں بھی امی  نہ سن سکی ۔۔۔
مجھ پہ قہر گزرا۔۔امی دنیا سے چل بسی  ہیں ۔۔۔
میں کس  کو بتاتا مجھ پہ درد کا پہاڑ گرایا گیا یے۔۔
رونے لگا ..محلے والے بھی آ گئے۔۔۔بہنوں کو بھی بلوا لیا۔۔میرا ایک سہارا تھا  وہ بھی نہ رہا۔۔۔
امی کو دفنایا۔۔۔۔بہنیں کچھ دن رہی اپنے اپنے گھر چلی گئی۔۔میں تنہا رہ گئا۔۔۔
ایک سکول میں ٹیچنگ کرنے لگا.۔۔لیکن ابھی مشکالات ختم کہاں ہوئی تھیں ۔۔۔۔
ان لڑکوں نے میری ویڈیو بنا لی تھی۔۔۔وہ ویڈیو وائرل ہو چکی تھی ۔۔میرا معاشرہ مجھے گندی گالیاں دینے لگا ۔۔۔
جنہوں نے میرے ساتھ یہ سب کیا وہ پارسا تھے۔۔
ہاں پولیس کے پاس گیا تھا نا ان کی کمپلین کروانے۔۔۔لیکن ۔۔۔کیا ہوا ۔۔میرے ساتھ زیادتی کرنے والا ایک پولیس والا بھی تو تھا نا۔۔۔۔
مجھے سکول سے نکال دیا گیا.۔۔
یہاں تک کے مجھے گاؤں سے بھی نکال دیا.۔۔۔۔نہ گھر نہ پیسہ نہ کوئی سہارا ۔۔۔۔صرف اللہ ہی اللہ تھا۔۔۔اور ہے۔۔۔
میں لڑکیوں کے کپڑے پہنے ۔۔بازار میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ایک خواجہ سرا  بھیک مانگتے ہوئے میرے پاس آیا۔۔۔۔
نی بہن یہاں کیوں بیٹھی ہے۔۔۔میں اس کی طرف دیکھ کر خاموش رہا….
وہ کہنے لگا میرا نام شبنم ہے۔۔تم۔بھی ہماری برادری کی ہو نا۔۔۔
میں نے چپ سادھ رکھی تھی۔۔۔
شبنم نے میرا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔ہائے میں مر جاؤں نی تم کو تو بخار ہے۔۔۔چل آ میرے ساتھ۔۔۔۔
اس نے مجھے سہارا دیا.۔۔مجھے چلنے کے لیئے کہا۔۔۔
میں اسے کیا بتاتا میں دو دن سے بھوکا ہوں ۔۔۔بھیک مانگنے کہ ہمت نہ تھی۔۔۔۔
میرے کندھے پہ جو بیگ تھا اس میں میری سکول کالج یونورسٹی کی ڈگریاں تھیں ۔۔۔۔
اور دو دن سے بھوکا تھا ۔۔۔اس نے کسی کو فون کیا۔نی باجی ۔۔ایک اپنی برادری کا ملا ہے اس کی صحت خراب ہے جلدی آ ۔۔۔۔
مجھے کار میں بٹھا کر ایک گھر میں لے گئے۔۔۔
گھر بہت خوبصورت تھا ۔۔۔وہاں سب کے سب خواجہ سرا  تھے۔۔۔۔سب میرے گرد جمع ہو گئے۔۔۔گرو بھی آیا …ہائے ماں صدقے جائے کیا ہوا میرے لال کو۔۔۔ جا نی پینو ڈاکٹر کو بلا کر لا۔۔۔
میں نہ چاہتے ہوئے ان لوگوں میں پہنچ گیا تھا۔۔۔
ڈاکٹر نے چیک اپ کیا مجھے انجیکشن لگایا. میں نے بتایا میں بھوکا ہوں دو دن سے۔۔۔
بہت دنوں بعد مزے کا کھانا کھا رہا تھا ۔۔۔
میں دیکھ رہا تھا ۔سب میں بہت پیار تھا ۔۔۔سب بہت خوش تھے۔۔
گرو میرے پاس آ کر بیٹھی ۔۔۔میری بچی کیا ہوا۔۔۔کہاں کی ہو۔۔۔میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔
میں نے اپنا نام بتایا۔۔میرا نام سمیر ہے۔۔۔۔
گرو نے پیار سے پوچھا کس کی چیلا ہے۔میں نہیں جانتا تھا چیلا کیا ہوتا ہے ۔۔۔
میں چپ رہا….گرو میرا سر دبانے لگی۔۔۔۔
مجھے سب نے بہت پیار دیا میں حیران تھا .۔۔یہ بھی انسان ہیں یہ بھی اللہ کے بنائے انسان ہیں ۔۔۔یہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ۔۔
میں کچھ دن وہاں رہا۔۔۔گرو نے کہا بیٹی …جینے کے لیئے کچھ تو کرنا پڑے گا۔۔۔یہ لوگ بہت ظالم ہیں ۔۔۔میں کہتی ہوں میری چیلا ہو جا۔۔۔میں کیا کرتا کہاں جاتا۔۔۔میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔
میرے کانوں میں بالیاں ڈالی گئیں۔۔۔۔
مجھے چیلا کر لیا۔۔۔۔میرے پیروں پہ گھنگرو باندھے۔۔۔
میں بے بسی میں بے حال ہو گیا….میں نے بیگ سے ڈگری نکالی جس پہ لکھا تھا مسٹر سمیر سافٹ ویئر انجنیئر ۔۔۔۔
پیروں کی جانب دیکھا ۔۔۔گھنگرو باندھے ہوئے۔۔۔۔
مجھے ڈانس سکھانے لگے۔۔۔۔
مجھے شادی بیاہ پہ ساتھ لے جاتے۔۔۔میں بہت خوبصورت تھا ۔۔۔۔مجھے ناچنے کا کہا جاتا لیکن میں تھک جاتا تھا ۔۔۔
میرے پیروں میں درد ہوتا.۔..
دوسرے سب خواجہ سرا میرا بہت خیال رکھتے ۔۔۔میرے پاؤں تک دباتے تھے۔۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ میں اس دلدل میں ڈوبنے لگا۔۔۔
میں ناچتا لوگ میرے اوپر پیسوں کی برسات کرتے۔۔۔
لوگ مجھے رات کی آفر بھی کرتے میں انکار کر دیتا۔۔۔
کبھی کبھی کسی شادی میں کوئی شراب پی کر ہم پہ تشدد بھی کرتا۔۔۔پیٹ کی خاطر سب کچھ برداشت کر جاتے۔۔۔رفتہ رفتہ میں مشہور ہونے لگا۔۔۔۔
میں خواجہ سراؤں کی ٹاپ لسٹ میں شمار ہونے لگا۔۔۔
لاکھوں روپے ایک پروگرام کے کمانے لگا ۔۔۔۔
میں کیا بننا چاہتا تھا لوگوں نے مجھے کیا بنا ڈالا ۔۔۔۔
جس گاؤں سے مجھے بدنام کر کے نکالا گیا تھا اسی گاؤں میں چوہدری کے بیٹے کی شادی میں مجھے لاکھوں روپے پہ بلوایا گیا مجھے کسی سیلیبریٹی  کی طرح رکھا گیا۔۔۔میرے ساتھ تصایر بنوائی سب نے۔۔۔۔
وقت کیسے بدلا تھا….میں عزت کی زندگی جینا چاہتا تھا سب مجھے بدنام کرنے پہ تلے تھے ۔۔۔۔۔میں بدنام ہوا تو سب عزت دینے لگے۔۔۔۔
میرے سکول کالج کے دوست ۔۔سب کہیں نہ کہیں سیٹل ہو چکے تھے۔۔۔میں مشہور خواجہ سرا بن گیا۔۔۔
میں گھنگرو پہنے گھنٹوں ناچتا رہتا۔۔۔۔لوگ مجھے دیکھ کر سیٹیاں بجاتے۔۔۔اور  میرے ذہن میں میری پڑھائی چل رہی ہوتی تھی۔۔۔۔
میں جو بھی تھا صاحب علم تھا ۔سافٹ ویئر  انجنیئر تھا اور  ایک قابل طالبعلم تھا۔۔۔بس فرق یہ تھا معاشرے نے مجھے قبول نہیں کیا..۔وہ مجھے ناچتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے ۔۔اور مجھے ڈانسر بنا ہی دیا۔۔۔۔
ایک دن میں ایک موبائل کی شاپ پہ کھڑا تھا ۔۔۔وہاں ایک شخص لیپ ٹاپ لیئے پریشان تھا ۔۔۔اس میں میرا بہت قیمتی ڈیٹا ہے ۔۔۔کوئی بھی اسے ٹھیک نہیں کر پا رہا…میں نے اس شخص سے کہا سر کیا میں ایک بار ٹرائی کروں ۔.۔۔
وہ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔واہ مشہور زمانہ خواجہ سرا میڈم پری ۔۔۔کو کمپیوٹرز کا بھی علم ہے۔۔۔میں مسکرانے لگا۔۔۔
جیسے ہی لیپ ٹاپ آن کیا .۔.مجھے پرابلم  کی سمجھ آ گئی 20  منٹ میں ٹھیک کر دیا۔.۔.
وہ شخص حیران تھا ۔۔۔۔۔وہ خود بھی سافٹ وئیر  انجنیئر تھا ۔وہ میری قابلیت پہ رشک کرنے لگا۔۔۔
میں کار میں بیٹھا چلا گیا۔۔۔رات کو مجھے شادی پہ جانا تھا ناچنے کے لیے۔۔۔۔
میں تیار ہوا۔۔۔الماری سے اپنے سارے کاغذات نکالے۔۔.رونے لگا۔۔۔ایک خواب جو مجھے تڑپاتا تھا۔۔۔میں ایک عزت کی پاکیزہ زندگی چاہتا تھا۔۔۔لیکن ۔۔۔معاشرے نے مجھے گندگی میں دھکیل دیا۔۔۔
مجھے یاد ہے اس رات میں بہت بیمار تھا 7 گھنٹے تک ناچتا رہا۔۔۔میرا بیمار ہونا کسی کو نظر نہیں آیا۔۔۔بس میرا ناچنا لوگ انجوائے کر رہے تھے۔۔
پروگرام سے گھر گیا۔۔۔۔۔
تھک چکا تھا ۔۔۔۔موبائل پہ ایک میل آیا ہوا تھا ۔.۔۔مجھے یقین نہ ہو رہا تھا ۔۔۔۔دو سال پہلے میں نے مائکروسافٹ کپمنی میں آنلائن انٹرویو دیا تھا ۔۔۔انہوں نے مجھے جاب دینے کی آفر کی۔۔۔
میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے مجھے کینڈا کا ویزہ آفر کیا۔۔۔۔میں رونے لگا۔۔۔۔
میں چیخ چیخ کر رونے لگا ۔۔۔میرا خواب پورا ہوا تھا ۔۔۔
سب میرے پاس آ گئے۔۔کیا ہوا پری۔۔۔۔
میں نے آنسو صاف کیئے سب کو بتایا مجھے جاب مل گئی ہے ۔۔۔سب بہت خوش ہوئے۔۔۔
میں نے بال کٹوائے۔۔پھر سے سمیر بنا۔۔۔سب خواجہ سرا رو رہے تھے ۔۔۔مجھے لاکھوں دعاؤں میں وداع کیا۔۔
میں دو سال تک مائکروسافٹ میں کام کرتا رہا۔۔۔
پاکستان کے حساب سے میری تنخواہ 11 لاکھ تھی۔۔۔
میں بہت خوش تھا ۔۔۔میری قابلیت دیکھ کر پانچ سال میں مجھے مینجر ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔۔۔
میں حیران تھا۔۔۔ان لوگوں نے کیوں مجھے خواجہ سرا کہہ کر ریجیکٹ نہیں کیا۔۔۔یہ لوگ کیوں میری اتنی عزت کرتے ہیں ۔۔ان لوگوں نے مجھے بڑا گھر گاڑی نوکر سب کچھ دیا ہے۔۔یہ لوگ مجھے کیوں نہیں کہتے ناچنے کے لیئے۔۔۔
یہ لوگ کیوں مجھے معاشرے کی گندگی نہیں سمجھتے۔۔۔
ہر کوئی کیوں مجھے سر کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔۔۔
پھر میں اپنے معاشرے کے بارے سوچنے لگا ۔۔۔
کتنی نفرت بھری ہے میرے معاشرے میں ۔کس قدر جہالت میں ڈوبا ہوا ہے میرا معاشرہ ۔۔۔۔
میرا معاشرہ آزادی کی بجائے غلامی کو ترجیح دیتا ہے۔۔
میں چیخ چیخ کر کہتا رہا مجھے اپنے ملک کے لیئے کچھ کرنا ہے ۔۔میرا معاشرہ کہتا رہا تم۔کو کنجری بن کر ناچنا ہے بس۔۔۔
میں سوچتا ہوں میں ہجڑا نہیں ہوں ۔۔۔میرے معاشرے کا ہر فرد ہجڑا ہے۔۔۔جن کے ضمیر مردہ ہیں ۔۔۔جن کا شعور مٹی کی خاک ہے۔۔جو اپنے حق کے لیئے نہ لڑ سکتے ہیں نہ آواز اٹھا سکتے ہیں ۔جو قوم بریانی کی پلیٹ پہ اپنا ضمیر بیچ دے اس قوم کا مستقبل کیا ہو گا خود سوچیں ۔۔۔
آج کا مینجر ڈائریکٹر چیخ چیخ کر کہتا رہا مجھے آنے والی نسل کے لیئے کچھ کرنے دو ۔۔میرے پیروں پہ گھنگرو باندھ کر مجھے کنجری بنا کر نچواتے رہے۔۔
انگلش قوم اس لیئے کامیاب ہے کے ایک خواجہ سرا کو عزت دے کر اس کی قابلیت دیکھ کر مینجر ڈائریکٹر بنا دیا۔۔۔
اور میرے معاشرے نے ایک سافٹ وئیر انجنیئر کو خواجہ سرا بنا دیا۔
چھوٹی چھوٹی بات پہ جانوروں کی طرح خون بہانے والی قوم خدارا خدارا  ہوش میں آ جائیں۔۔
میرے ساتھ کیا ہوا مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں بس میں اپنے معاشرے کی ترجیحات بتا رہا ہوں ۔۔
خواجہ سرا بھی انسان ہے۔۔اسے اپنے معاشرے میں جگہ دیں۔۔اسے صرف ناچنے والا نہ سمجھیں سکول کالج گلی محلے میں اگر کوئی بچہ ایسا یے تو اس کی ہمت بنیں نہ کے اس پہ طنز کریں ۔۔۔
لنگڑے کو لنگڑا کہنا اندھے کو اندھا خواجہ سرا کو ہجڑا کہنے کی بجائے ان کے اصل نام سے مخاطب کریں 
اللہ جسے چاہے ویسا بنا دے۔۔اگر آپ کو ہی اللہ کوئی موذی بیماری میں مبتلا کر دے تو آپکا کیا زور ہے اس پہ۔۔۔
یاد رکھیں باضمیر قومیں اتحاس لکھتی ہیں ۔۔۔کسی خواجہ سرا کو مینجر ڈائریکٹر بنا کر۔۔۔چائے کی پیالی پہ ایمان بیچنے والی قومیں صفحہ ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں ۔۔ایک صاحب علم سمیر کو خواجہ سرا بنا کر۔۔۔
آخر ہم۔کیوں اتنے بے رحم بن گئے ہیں آخر ہم کیوں فتنوں میں ڈوب گئے۔۔آپ سب کے لیئے ایک سوال چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔۔۔۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور رحم دلی کا حکم نہیں دیا۔۔۔اگر دیا ہے تو آپ خود کو کیسے مسلمان کہہ سکتے ہیں نفرتیں پھیلا کر؟ مسلمان تو محبت کا دریا ہے۔۔آپ کیا ہیں ذرا سوچئے-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from gNews Pakistan

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading