بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے..میاں اسامہ صادق
ہر محکمہ میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سارا محکمہ بد نام ہو جاتا ہے ۔ جنکی غلطیوں کی سزا سارا محکمہ بھگتتا ہے۔ غلط کام یہ لوگ کرتے ہیں مگر بدنامی سارے محکمہ کی ہوتی ہے ، اس طرح ڈاکٹروں میں بھی کچھ ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہیں نے طب کے مقدس پیشہ کو عوام کی خدمت کی بجائے صرف اور صرف ذریعہ آمدن سمجھا ہوا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ہونے کے باوجود کئی کئی پرائیوٹ کلینک کھولے ہوئے ہیں جہاں 2 ہزار سے کم فیس نہیں لی جاتی۔ اور انہی ڈاکٹرز سے اگر سرکاری اسپتال میں چیک اپ کروایا جائے تو انکا منہ ہی سیدھا نہیں ہوتا لیکن جب انسے پرائیویٹ چیک اپ کروایا جائے تو یہ آپکو کسی وزیر جیسا پروٹوکول دیتے ہیں، اور کچھ تو ایسے ڈاکٹرز بھی ہیں جو پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی آپکو انسان نہیں سمجھتے اور جانوروں سے بد تر سلوک کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت شائد دنیاں کے واحد ایسے ممالک ہیں جہاں غریب ہونا جرم ہے اور غریب کا بیمار ہونا اور بھی بڑا جرم ہے۔ فیصل آباد الائیڈ ہسپتال میں ہونے والا واقع انتہائی دل خراش واقع ہے۔ کچھ ماہ قبل ایک 20 سالہ لڑکی کا آپریشن کیا جاتا ہے اور قینچی پیٹ میں ہی چھوڑ دی جاتی ہے اور ٹانکے لگا دیے جاتے ہیں۔ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد جب بچی کی تکلیف بڑھ جاتی ہے تو معائنہ کرنے پر معلوم ہوتا یے کہ بچی کے پیٹ میں قینچی ہے اور اس سے انفیکشن ہو جاتا ہے۔ دوبارہ آپریشن کیا جاتا ہے قینچی نکالی جاتی ہے لیکن انفیکشن پھیل چکا ہوتا ہے۔ کچھ ماہ بچی تکلیف میں مبتلا رہنے کے بعد انفیکشن کی وجہ سے وفات پا جاتی ہے۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے. ڈاکٹر تو بھیڑیئے بنے بیٹھے ہیں۔ یہ آئے دن کے واقعات ہیں، کچھ ماہ قبل فیصل آباد کے معروف ہسپتال فیصل ہسپتال میں کبڈی پلئیر کی آپریشن کے دوران ٹانگ کاٹ دی جاتی ہے اور اسکا مستقبل تباہ کر دیا جاتا یے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میڈیکل بورڈ ان جیسے ڈاکٹروں کا لائسنس یا حیات معطل کیوں نہیں کرتا ؟ اسی طرح چند دن پہلے ایک اور واقع پیش آیا لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت سے 24 سالہ لڑکی جاں بحق ہو گئی، تھانہ خان رازق تھانے میں دائر درخواست میں جاں بحق لڑکی کے ورثا نے پولیس کا بتایا ہے کہ گیسٹرو کی مرض میں مبتلا لڑکی کو بیڈ نہ ملنے پر ای این ٹی وارڈ میں داخل کرایا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے مریضہ کو علاج فراہم نہیں کیاگیا، ڈاکٹروں کی غفلت سے جواں سالہ لڑکی دم توڑ گئی۔ اسی طرح ملتان میں ایک واقع پیش آیا جہاں 5 سالہ بچے کا کھیلتے ہوئے آگ سے بازو جھلس گیا، جسے علاج کیلئے ملتان کے سب سے بڑے نشتر ہسپتال کے برن یونٹ لایا گیا، ڈاکٹروں نے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچے کے بازو کی بجائے ٹانگ کی سرجری کر دی۔جھلسے ہوئے بازو کی بجائے ٹانگ کی سرجری کیے جانے پر بچے کی حالت بگڑ گئی اور وہ کئی کوششیں کے باوجود جانبر نہ ہو سکا۔ ایسے واقعات روز سننے کو ملتے ہیں مگر کوئی بھی حکومت ان جیسے ظالموں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی۔ حکومت اور میڈیکل اداروں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ ڈاکٹروں کو انسانیت کا مسیحا مانا جاتا ہے مگر ان جیسے قصائی ڈاکٹروں کی وجہ سے باقی سب ڈاکٹرز بھی بدنام ہیں۔ پاکستان میں بہت اچھے اور فرشتہ صفت ڈاکٹر بھی موجود ہیں جو بغیر کسی لالچ کے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ جنہوں نے بالکل معقول فیس رکھی ہوتی ہے اور کچھ تو بغیر فیس کے گی سبیل اللہ دوائی دیتے ہیں۔ الله تعالیٰ نے انہیں دکھی انسانیت کے لیے مسیحا بنایا ہوا ہے۔ اور انکے ہاتھوں میں شفا بھی رکھی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اپنی ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزار رہے ہیں۔ انہیں مسیحا ڈاکٹرز کی وجہ سے لاکھوں غریب صحت یاب ہو رہے ہیں ورنہ چند بھیڑیوں نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔