Headlines

شہرِ آشوب – شاہین کمال

Spread the love

شہرِ آشوب 

امی آج شاید مجھے اوور ٹائم کرنا پڑے کہ مہینے کی ستائیس تاریخ ہے اور کنسائنمنٹ جانے کی آخری تاریخ قریب تر. بےنظیر نے اپنی بےداغ کلائی پر گھڑی کے اسٹرپ کو کستے ہوئے، رات کی باسی روٹی تلتی ہوئی ماں کو اطلاع دی .
مرتضیٰ کہاں ہے؟
اسے کالج کے لیے دیر نہیں ہو گئی آج؟
نہیں آج وہ کالج نہیں جائے گا، اسے بخار ہے. ماں نے پیڑھی پر بیٹھتی بے نظیر کو بتایا.
ارے نہیں!! کب سے!!
بے نظیر نے بےقراری سے اٹھتے ہوئے کہا.
تم بیٹھو اور جلدی جلدی ناشتا کرو. ابھی تمہاری فیکٹری کی ناس پیٹی بس، طبل بجاتی وارد ہو جائے گی اور روز کی طرح تمہارا ناشتا ادھورا رہ جائے گا. مرتضیٰ سو رہا ہے، اسے میں نے فجر کے وقت دوا دے دی تھی . ایک تو موا وائرل جان کو آ گیا ہے. جیسے دیکھو کھانس یا چھینک رہا ہے. موسم بدلے تو کھانسی جو نہ بدلے تو سُستی گویا چین کی کلی طور پر چھٹی.
اف امی!! آپ کا بیٹا کیا ڈاکٹر بن رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ آپ بھی آدھی ڈاکٹر بن گئی ہیں.
بے نظیر نے ہنستے ہوئے پلیٹ سنک میں رکھی اور ساتھ ہی بس کا گونج دار ہارن کان کے پردے پھاڑنے لگا.

میرے ماں باپ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بڑی صعوبتیں سہتے، آگ کا دریا پار کر کے(مغربی) پاکستان پہنچے تھے. یہ لوگ رنگ پور کے رہائشی تھے اور بحثیت نئے شادی شدہ جوڑے، وہاں رنگارنگ زندگی بسر کر رہے تھے. برسوں سے اندر ہی اندر پنپتی سازش و شورش نے پاکستان کو دو لخت کیا. وہ بڑے ہولناک دن تھے. ان دنوں بربریت کی ایسی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ سنائے نہ بنے اور جو سن لو تو پتھر کلیجہ بھی پانی ہو جائے. مشرقی پاکستان، محب وطن پاکستانیوں کے خون سے رنگین پدما میں ڈوبا اور دنیا کے نقشے پر لہو رنگ بنگلا دیش نمودار ہوا. پر ملکوں کے اس مٹنے اور بننے میں لاکھوں اپنی جانوں سے گئے. عزتیں پامال ہوئیں، گھر بار جلا، کاروبار لٹا. جو لوگ قدرے بہتر حالات میں تھے وہ سو جتنوں سے مغربی پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے . قریباً پانچ لاکھ بد نصیب مشرقی پاکستانی، نئ مملکت کے نا خداؤں کے ہاتھوں زندگی کی قید میں زندگی کا جبر سہنے پر مجبور ہوئے. اللہ بھلا کرے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیروکاروں کا، انہوں نے بنگلا دیش میں جگہ جگہ کیمپ کھول کر ان بدنصیبوں کو برائے نام ہی سہی مگر محفوظ زندگی دی. پہلے وہ بے وطن عرصے تک کھلے آسمانوں تلے، پھر چادر اور کمبل کے خیمے میں پھر ٹین کے چھت کے اٹھ بائی آٹھ کمرے میں پناہ گیر ہوئے . کیمپ کے حالات اتنے نا گفتہ بہ کے زندگی وہاں سے منہ چھپا کر بالا ہی بالا نکل جاتی ہے. جانوروں کے باڑے سے بد تر ان بے بسوں کی کھولیاں ہیں . اتنی غلیظ اور بدبو دار فضا کہ ناک پر رومال رکھنے کے باوجود آپ قے روکنے پر قادر نہ ہوں. ہمارے دکھ و بےبسی کو زمین زادے محسوس کر ہی نہیں سکتے یہ وہ الم ہیں جو ایک بے وطن سہتا ہے. بھلا زمین زادے، سفاک آسمان کی ستم ظریفی سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں؟
اپنی محفوظ چھتوں تلے سکھ چین سے رہنے والوں کو کیمپ کی عبرت ناکی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی. ممکن ہی نہیں کہ وہ یہ جان سکیں، گھنٹوں تپتی زمین پر قہر برساتے سورج کے نیچے بے انت قطار میں کھڑے پانی کا انتظار کیا معنی رکھتا ہے؟ اس پہ طرہ یہ کہ وہ حاصل شدہ پانی ہمارے لیے آب حیات نہیں بلکہ تیزاب ہوتا ہے. کوئی اس اذیت ناک احساس کا ادراک کیسے کر سکتا ہے، جب ہماری اپنی ہی زمین ہمارے لیے اجنبی بنا دی گئی تھی. اس کی مانوس فضا میں سانس لینا جگر کو کیسے فگار کرتا ہے، یہ ہم سے پوچھیے. بے زمینی و بے وطنی کا یہ جان لیوا دکھ، اس کا ادراک صرف وہی خانماں برباد کر سکتا ہے جس نے یہ عذاب اپنے جسم و جاں پر جھیلا ہو.

امی ابا نے سقوط مشرقی پاکستان میں اپنا تقریباً دو تہائی خاندان گنوا دیا تھا. وہ دونوں تین سال بنگلا دیش کے بد ترین کیمپوں میں عبرت انگیز زندگی گزار کر سنہ پچھتر میں بد حال و نڈھال پاکستان پہنچے. یہاں مغربی پاکستان میں نئ آزمائشیں ان کی منتظر تھیں. سو جتن و کٹھنائیوں سے اورنگی ٹاؤن میں جھگی ڈال کر زندگی کا آغاز کیا. شکر کہ ابا رنگ پور میں سرکاری ملازم تھے اس لیے ڈیڑھ پونے دو سال دھکا کھانے کے بعد ادارہ شماریات میں بھرتی کر لیے گئے ورنہ اس سقوط کے سانحے نے کیسے کیسوں کو ایسا ویسا اور ایسے ویسوں کو کیسا کیسا کر دیا تھا. حالت یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے لکھ پتی، ککھ پتی ہوکر نئے پاکستان میں رل رہے تھے اور کوئی انہیں پوچھتا نہ تھا. وہ بد نصیب جو وہاں چائے بگان رکھتے تھے چائے کی پتی مول لینے کے جوگے بھی نہ تھے.

گو امی، ابا پر وقت کا وار کاری تھا مگر انسان بھی ازلی ڈھیٹ. کیسے ہی برے حالات کیوں نہ ہو سروائو کر ہی جاتا ہے، زندہ رہنے کے سو بہانے، آسرے ڈھونڈ ہی لیتا ہے. ویسے بھی ہمارے پرکھے کون سے مغل تاج دار شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی نسل سے تھے. پر جو سچ کہوں تو ہم شاہ کی نسل سے بہتر ہی رہے کہ وہ بیروت کی گلیوں میں بھیک مانگتے پھرتے تھے اور ہم یہاں کراچی کی سڑکوں پر پسینہ بہاتے رزق حلال کی جوکھم میں اپنی ہڈیاں گلاتے رہے. گرتے پڑتے ابا امی کی زندگیاں بھی چل ہی نکلیں اور بالآخر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ زخم پر کھرنڈ آ ہی گیا. یہاں پاکستان میں خاندان کا سگا تو کوئی نہ تھا سو اڑوسی پڑوسی ہی ماں جائے ٹھہرے. ہم مشرقی پاکستانیوں میں سقوط کا غم و زخم تازہ تھا سو اس کرلاتے دکھ نے ہم مشرقی پاکستانیوں کو آپس میں باندھ رکھا تھا. یوں بھی یہاں کے بسے بسائے مغربی پاکستانی ہماری جانب کم ہی التفات برتتے کہ ان کا خیال تھا کہ ہم حرماں نصیب ان کے حق پر ڈاکا ڈال رہے ہیں. ان کی نوکریاں اور اسکولوں، کالجوں میں ان کے بچوں کی پوزیشنیں ہڑپ کر رہے ہیں.
ہائے میرے اللہ! گویا مرے پہ سو درّے.

اپنوں کے کرم ستم سہتے زندگی کی گاڑی گھسٹ رہی تھی کہ چھیاسی نے پھر سنہ اکہتر میں پہنچا دیا. بنگال میں سورش تھی، بغاوت تھی. نا انصافیوں نے سنہرے دیس کے باسیوں کے دلوں میں کدورت اور دراڑیں ڈال دی تھی پر یہاں پاکستان کیا ہوا؟؟
چودہ دسمبر 1986 کا بھیانک دن ہمارے بچپنے کو اپنے ساتھ لے کر ڈوبا. اورنگی قصبہ میں وہ آگ لگی، وہ آگ لگی اور ایسی خون ریزی کی گئ کہ بنگال کی بربریت اور بے پناہی یاد آ گئ. اماں نے سنہ اکہتر میں بنگال میں مکتی باہنی کے ظلم کے سبب یتیمی سہی تھی اور اپنے دونوں جوان بھائیوں کی گمشدگی سے ان کا داغ داغ سینہ فگار تھا. اب اسی پاک سر زمین پر پاک فوج کے ہوتے ہوئے بھی پٹھانوں کے قہر کے سبب بیوگی کے صدمے اٹھائے. برسوں ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح کرلاتی رہیں پر کچھ بھی تو نہ ہوا. نہ کوئی سنوائی نہ دہائی اور نہ ہی انصاف. لٹیرے اور قاتل ہمھار آنکھوں کے سامنے دندناتے پھرتے ہیں اور زنگ آلود پیٹی میں پڑی ایف آئی آر کی نقل ہمارا منہ چڑھاتی ہے. جب قصبہ کالونی کے ہنگامے میں ابا یعنی شمس الدین شیخ کا قتل ہوا, پوری کی پوری سترہ گولیاں ابا کو چھلنی چھلنی کر گئی تھیں . اماں جو انہیں بچانے لپکی تو کلہاڑی کا وار اماں کی کمر چیرتا چلا گیا . تا خیر سے علاج کے سبب اماں ہمیشہ کے لیے کبڑی ہو گئی تھیں . شاید یہ اماں کے سانحہ بنگلا دیش کے سنائے ہوئے قصوں کی باز گشت ہی تھی جو گھر کی داخلی دروازے کے توڑے جاتے ہی میں تیزی سے مرتضیٰ کو لیکر پچھلے کمرے میں پلنگ کے نیچے سرک گئ تھی. میں نے ایک ہاتھ سے مرتضیٰ کا منہ زور سے دبایا ہوا تھا اور اپنے ہونٹوں کو اتنی سختی سے بھینچا کہ میرے منہ میں اپنے ہی خون کا نمک گھل گیا. سانحہ قصبہ کے وقت میں اٹھ سال کی اور مرتضیٰ فقط پانچ سال کا تھا.
ابا کی شہادت کے بعد وہ کون سا کام تھا جو اماں نے نہیں کیا. اماں اپنی ادھڑی کمر کے ساتھ گھر کا مرد بن گئی تھیں. نو سال کی عمر میں مرتضیٰ، اسکول سے واپسی کے بعد چار بجے شام سے بنارس کی کپڑا مارکیٹ میں پکوڑوں کا تھال لے کر بیٹھا کرتا تھا. بنارس اورنگی ٹاون میں بنارسی کپڑوں کی ایک دکان ابا کے جاننے والے کی تھی. اس کٹھن وقت میں صدیق چچا نے کمالِ مہربانی سے اپنی دکان کے تھڑے پر مرتضیٰ کے بیٹھنے کا انتظام کر دیا تھا. مرتضیٰ کے آدھے سے زیادہ پکوڑے تو وہی اپنے گاہکوں کے لیے خرید لیا کرتے تھے. کچھ عرصے بعد پکوڑے بنانے کی کل زمہ داری میری ہو گئ. اماں، مرتضیٰ کو دکان چھوڑنے اور سات بجے وہاں سے واپس لینے جاتیں اور اس بیچ جانے کتنے دوسرے کام نپٹاتی پھرتیں . مرتضیٰ وہیں تھڑے پر اپنے ساتھ اپنی کتابیں بھی رکھتا اور بیچ بیچ میں اپنا ہوم ورک مکمل کرتا. ہم دونوں بہن بھائی اپنے اپنے بچپن سے آنکھیں چرا کر ذمہ دار ہو چکے تھے. ہم کم عمری ہی سے گھر کی معیشت کے بھاڑ میں جھونکے گئے کہ پیٹ کا تنور جائز طریقوں سے بھرنا بڑا جوکھم .

کسی کے روکے سے وقت کب رکا ہے. وہ کسی کے لیے سُستی تو کسی کے لیے تیزی سے گزر ہی جاتا ہے. ہمارا وقت بھی روتے کراتے بالآخر بدل ہی گیا. میں نے آئی کام کیا، محنت تو گھٹی میں پڑی ہی تھی سو مختلف نوکریاں کرتے کراتے پچھلے پانچ سالوں سے سائٹ ایریا میں ہوزری فیکڑی میں کام کر رہی ہوں. اب میں وہاں شفٹ انچارج ہوں. عزت بھی ہے اور تنخواہ بھی مناسب. ہم لوگوں میں محنت کی عادت اتنی راسخ کہ اماں کو آج بھی چین نہیں. اب اماں بلا معاوضہ بچیوں کو قرآن کی تعلیم دیتی ہیں. گھر کا آنگن انڈسٹریل ہوم بن چکا ہے یہاں کم عمر لڑکیاں امی سے امور خانہ داری سیکھنے آتی ہیں کہ امی جیسی غرارے کی تراش اور شاہی ٹکڑے اور بہاری کباب کا ثانی پورے اورنگی میں کوئی نہیں.
مرتضیٰ کا ڈاؤ میڈیکل میں آخری سال ہے. اب اماں کی واحد پریشانی میری نا ہونے والی شادی ہے. ظاہر ہے انتیس سال کی غیر شادی شدہ بیٹی چھاتی پر K2 جیسا بوجھ ہی تھی. اماں تو گولٹا یعنی ادلے بدلے کی شادی پر تیار بیٹھی تھیں مگر میں، جس نے مرتضیٰ کو اپنے بچے کی طرح پالا تھا. اس کے رازوں کی امین تھی . لحاظ کے مارے مرتضیٰ نے مجھ سے کھل کر کبھی نہیں کہا مگر میں اس کی آنکھوں کے رنگ اور لہجے کی کھنک سے آشنا، جانتی ہوں کہ بسمہ، اس کی کلاس فیلو اس کے دل کی مکین ہے. میں نے اماں سے صاف صاف کہ دیا کہ گولٹ شادی کا تو سوچیے گا بھی مت ورنہ میں اسی آنگن کے بیچ مٹی کا تیل چھڑک کر خود کو بھسم کر لوں گی. مجھے اماں کی پریشانی سے زیادہ دکھ مرتضیٰ کی فکروں کا تھا. میں دیکھ رہی تھی کہ میری شادی کی ٹینشن، مرتضیٰ، میرے دلارے بھائی کی نیندیں اڑا رہی ہے. کاش اللہ انسان کو اتنا مجبور و بےبس نہ بناتا.

فیکٹری پہنچ کر میں تندہی سے کام میں مصروف ہو گئی. میری پوری کوشش تھی کہ اوور ٹائم نہ کرنا پڑے کہ گہری پڑتی شامیں مجھے ڈراتی ہیں . دسمبر کا مہینہ ویسے بھی ہمارے گھر محرم کی طرح منایا جاتا ہے. ابھی تیرہ دن قبل ہی تو ابا کی برسی گزری تھی، پھر سقوط مشرقی پاکستان کا غم، نانا اور دونوں ماموں کی برسی. میں نے بتایا نا کہ دسمبر ہمارے یہاں محرم کی طرح اداس اور ویران گزرتا ہے.
لنچ بریک پر رخشندہ نے سب کو اپنی منگنی کی میٹھائی کھلائی. سانولی سلونی رخشندہ کے چہرے پر خوشیوں کے دیپ جل رہے تھے. وہ مجھے بازو سے گھسیٹتے ہوئے ڈائنگ ہال کے آخری سرے پر لے گئ اور کہنے لگی،
سن!! بے نظیر میرے جیٹھ کی شادی نہیں ہوئی ہے اور میری ساس اپنی بڑی بہو ڈھونڈھتی پھر رہی ہیں. اماں نے انہیں تمھارا بارے میں بتایا تھا اور وہ بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھیں . اماں نے تمھارے گھر کا پتہ انہیں دے دیا ہے. شاید وہ ایک ادھ دن میں تمھارے یہاں چھاپا ماریں.
وہ ہے کیسا اور کیا کرتا ہے؟
میں نے جھجھکتے ہوئے پوچھا.
ارے بھئ دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی شاہ رخ خان جیسا دلبر نہیں پر فکر نہ کر اکشے جیسا برا بوتھا بھی نہیں. بڑا بھائی بقائی میڈیکل لیب میں ٹیکنیشن ہے. دو ہی بھائی ہیں. اچھا ہے جو تو میری جیٹھانی بن جائے، اپن دونوں مزے کریں گے.
مجھے خیالی پلاؤ پکاتی رخشندہ پر ہنسی آ گئ. چل بہن!! میری ملا نصیرالدین کی نواسی لنچ بریک ختم ہو گیا اور آج کام بہت ہے.

ابھی چھٹی میں تھوڑی دیر باقی ہی تھی. جب یہ وحشت ناک خبر ملی کہ لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو پر گولی چلا دی گئی تھی اور ساتھ ہی بم دھماکا بھی ہوا تھا. اس خبر کے ساتھ ہی شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور جگہ جگہ جلاؤ گھیراؤ شروع ہو گیا تھا. مینجمنٹ نے جلدی جلدی لڑکیوں سے کہا کہ وہ اپنی اپنی پوائنٹ کی بس پر بیٹھ جائیں. ہم سب افراتفری میں گرتے پڑتے اپنی اپنی بسوں میں بیٹھ گئے. سب کا ڈر سے برا حال تھا اور آیت الکرسی پڑھتے پڑھتے ہم لوگوں کے حلق خشک ہو رہے تھے . مارے دہشت کے ہمارے آنسو خشک ہو چکے تھے اور بدن پہ لرزہ طاری تھا. ہمارا بس ڈرائیور چچا کریم بہت ہشیار اور شریف النفس انسان تھا. اس کی موجودگی دل کو ڈھارس دے رہی تھی. وہ جانے کن گلیوں اور کوچوں میں بس کو پھراتے چل رہے تھے . ابھی ہم لوگ بمشکل تین ہٹی کے پاس پہنچے ہی تھے کہ سامنے سے ایک ہجوم آتا نظر آیا. چچا نے بس واپس موڑنی چاہی مگر دیر ہو چکی تھی. ان لوگوں نے لوہے کے راڈ سے بس کے شیشے توڑنے شروع کر دئے. اسی اثنا میں چار پانچ غندے چلتی بس میں داخل ہوئے اور کریم چچا کو بس کے دروازے سے باہر پھینک دیا. ڈراوئنگ سیٹ پر ایک شخص قابض ہو گیا اور باقی غندے لڑکیوں پر دست درازی کرنے لگے. یہ دیکھ کر بس کے پچھلے دروازے سے دو تین لڑکیاں کود کر باہر نکلی. میں نے بھی دروازے سے کودنا چاہا مگر کسی نے مجھے کمر سے پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا. پھر… پھر مجھے ہوش نہیں رہا. کاش کہ میری بے ہوشی دائمی ہوتی. کاش میں اسی پل مر جاتی، مار دی جاتی کاش…. کاش…….

ستائیس دسمبر 2007 کی شام وہ شامِ غریباں جب کراچی پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی. تین دن تک، مسلسل تین دنوں تک کراچی جلتا رہا. کراچی کو لوٹا جاتا رہا. کراچی کی معصوم و مظلوم بیٹیوں سے بے نظیر بھٹو کے قتل کا بدلا لیا گیا . اس شام کراچی کی سڑکوں پر بنت حوا بے امان تھی، وہ لوٹ کا مال بنا دی گئی تھی اور بری طرح تاراج کی گئ.

اورنگی قصبہ کے مکان نمبر 120 C پر ایک زخم خوردہ ماں، جس کی آنکھیں اپنی بیٹی کی واپسی کی راہ تکتے تکتے پتھرا گئیں. اپنی بیٹی کی بخریت واپسی کی دعا کرتا اس کا رنجور دل بالآخر صدمے اور وحشت سے بند ہی ہو گیا. اس کا اکلوتا خوبرو بیٹا مرتضیٰ، اپنی بہن بے نظیر کی تلاش میں سرگرداں اس شہرِ آشوب میں جانے کہاں کھو گیا.

جنموں سے “پاٹلی پترا” میں بسا شمس الدین کا خاندان ہجرت کے پے در پے آزار سہتا ، سنہ 2007 میں مملکت خدا داد میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from gNews Pakistan

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading