بچنا کچھ نہیں ۔۔
“انہیں خون کی لت لگ گئی
تو بچنا کچھ نہیں “بادشاہ سلامت”
یا تو اصلاح کے لوازمات پورے کیجئے
اصلاح کرنے کے طریقے سیکھ لیجئے
یا پھر خود کو مصلح سمجھ کر گیان بانٹنا چھوڑ دیجیے ۔
اگر آدھی صدی گزار کر دنیا جہان کا علم حاصل کر کے بھی آپ کے اندر سے تکبر ختم نہیں ہوا ،فرعونیت اور اکڑ نہیں نکلی ، نرمی سے بات کرنا نا آیا ،موقع کی مناسبت سے یا معاملے کی سنگینی کے حساب سے بات کرنے کا ڈھنگ نہ سیکھ سکے تو بہتر ہے خاموشی اختیار کر لیں۔
آپ کی بزعم خود مخلصانہ گفتگو جس میں سوائے صنف دوم کیلئے حقارت ہے برتری کا آپ کا ایسا زعم جس میں ایک جیتی جاگتی باشعور صنف کیلئے تحقیر ہے،
“اخے برابری کرتی ہیں”
کے متکبرانہ الفاظ ہیں
تو یاد رکھئے یہ رویئے اصلاح کرنے کی بجائے ایسا بگاڑ پیدا کرتے ہیں جس کے اثرات آپ کی نسلیں بھگتیں گی بلکہ بھگت رہی ہیں تو یقین جانیئے آپ کا چپ رہنا ہی نیکی ہے۔
کیونکہ اس سے آپ اسلام کی تو کوئی خدمت نہیں کر رہے نا معاشرے کی اصلاح میں کوئی مثبت حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ الٹا اسلام کو بدنام اور لوگوں کو متنفر کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
اگر آپ مرد کو بادشاہ اور عورت کو رعایا سمجھتے ہیں تو یاد رکھئے رعایا اگر بغاوت پر اتر آئے تو بڑے بڑے شاہوں کے تاج خاک میں ملا دیتی ہے
بڑے بڑے حاکموں کے سر قلم کر دیتی یے۔
اس تکبر اور خوش فہمی سے آخر آپ کب نکلیں گے کہ اللہ نے آپ کو حاکم نہیں نگہبان بنایا تھا
بادشاہ نہیں قوام بنایا تھا
مرد دوسری عورتوں کا ہی نہیں اپنی بیوی کیلئے بھی حاکم نہیں ہے مگر آپ کی اسی تفسیر نے آج عورت کو اپنے حق کیلئے سڑکوں پہ لا کھڑا کیا ہے۔
آپ کو پورے قرآن میں سے بس وہ ایک آیت
کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے
تو یاد رہ گئی مگر وہ بیسیوں آیات آپ نے نہایت مکاری سے چھپا دیں ان پہ کبھی بات نہیں کی کہ
مرد اور عورت ایک ہی جنس سے پیدا ہوئے ہیں
تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی ہے پرہیز گار ہے
عورتوں کو ان کے اعمال اور مردوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا و سزا ملے گی
اللہ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں
بالکل بھول گئیں؟
یا آپ عورت کو انسان کی کیٹیگری میں ہی نہیں رکھتے؟
آپ کے نزدیک اسلام کا نظام مساوات کیا ہے؟
یا پھر قرآن کا مخاطب “یاایھا الناس”
میں “والناس” صرف مردوں کیلئے ہی استعمال ہوا ہے؟
آپ کیسے مصلح ہیں کہ عورتوں کیلئے آپ کے لفظوں سے نفرت ،انداز کلام میں تحقیر اور لہجے کی رعونت ہی ختم نہیں ہوتی۔
بچپن میں ماں کی کہی ایک بات یاد آتی ہے اور اکثر یاد آتی ہے جب ہم آپ ہی کی طرح خود کو مصلح اور خدائی فوجدار سمجھ کر اپنے سے چھوٹے بچوں کو نماز پڑھنے کا کہتے مگر ایک درجہ تکبر ،رعونت اور حاکمانہ انداز سے کہ بچے نماز پڑھنے کی بجائے الٹا تن فن کر کھڑے ہو جاتے اور جواب دیتے
چل نہیں پڑھتے نماز کر لے جو کرنا ہے
تب ماں کہتی تھی
یہ اصلاح کا طریقہ نہیں ہے اس طرح تو تم انہیں مزید متنفر کر رہی ہو نا صرف متنفر بلکہ تمہارے حاکمانہ ،متکبرانہ انداز سے زچ ہو کر وہ ضد میں آ کر بسا اوقات کلمات کفر بھی کہہ بیٹھتے ہیں جس کا سارا گناہ تمہارے سر جائے گا
آپ کو کیا لگتا ہے آپ کے اس متکبرانہ انداز سے چڑ کر عورتوں نے غلط راستے اختیار کر لئے تو نقصان عورت کا ہو گا؟
بھول ہے آپ کی ۔۔خدا کی قسم وہ آپ کی نسلیں لے ڈوبے گی
اس لئے یاد رکھیں اگر آپ کا مقصد سچ مچ دین کی پاسداری ،روایات کی نگہبانی ،معاشرے کی اصلاح ہے تو اس کیلئے انداز بھی اسی دین سے ہی سیکھئے۔
قرآن حکیم ہے حکمت کی کتاب اور سکھانے والا پیغمبر بھی حکمت سے مالا مال تھا۔
مگر آپ کو تو تکبر کی ایسی لت لگی ہے کہ ایک آیت کے سوا قرآن کی کوئی آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت نظر ہی نہیں آتی۔
کہیں کوئی گھر کے کام کرنے کو ایسی تحقیر سے پیش کرتا ہے کہ دل کاموں کی تقسیم پہ مائل ہونے کی بجائے مقابلے پہ اتر آئے تو کہیں کوئی عورت کو رعایا اور مرد کو بادشاہت کے مراتب پہ بٹھا دیتا ہے۔
کوئی کم فہم اٹھتا ہے تو نشوز کو مار پیٹ پہ لے جاتا ہے
اور کوئی احساس دلاتا ہے کہ گھر میں عورت کے ہوتے ہوئے اس نے دو برتن دھو لئے تو اس کی شان میں کمی آ گئی۔
اگر گھر کے کام کرنے سے آپ کی شان و شوکت میں کمی آتی ہے تو پھر عورت کیلئے ان کاموں کو کیوں روا سمجھتے ہو؟
آپ لوگوں کو دراصل ان لائکس اور کمنٹس کرنے والوں نے بگاڑ دیا ہے جبھی آپ کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ آپ کے لفظوں نے کتنے دلوں میں نفرت کے بیج بوئے اور کتنے دلوں میں موجود غصے کو مزید بھڑکایا۔
احمد جاوید صاحب کے الفاظ میں
“عورت کے لیے ایک قبائلی تکبر سے بننے والے فقہی ذہن نے جینا دوبھر کر رکھا ہے”
اور آپ کے اسی قبائلی تکبر میں مبتلا فقہی اذہان نے جو تعبیریں اور تفسیریں قرآن مجید کی لوگوں کو پیش کیں اس نے صرف عورت کی زندگی دوبھر نہیں کی بلکہ پورے معاشرے کو زہریلا کر دیا ہے اور ایک ایسے فتنے کا باعث بن رہی ہے جس کا اختتام تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آرا۔
اس پہ طُرح آپ نے علاقائی رسم و روایات، سماجی انداز رہن سہن کو مذہب سے بھی بلند تر چیز بنا کر پیش کر دیا۔
جس دین کے نام پر آپ عورت اور مرد کے کاموں کی تقسیم پہ بات کرتے ہیں اسی دین کا سب سے بڑا پیشوا رول ماڈل گھر میں بہ یک وقت چار اور نو بیگمات، نو خواتین (جن کیلئے مددگار ملازمائیں بھی موجود تھیں) کے ہوتے ہوئے اپنے گھر میں جھاڑو خود کر لیتے تھے ،اپنے کپڑے خود ترپائی اور جوتے خود مرمت کر لیتے تھے انہوں نے تو نہیں کہا کہ
عورتیں موجود ہیں تو مرد کیلئے گھر کے کام کرنا خلاف شان مردانگی ہے یا عورت مرد کے کاموں کی تقسیم کرو اور جو مرد عورت کے حصے کا کام کرے گا مردانگی کے مرتبے سے اتر جائے گا۔
پھر آپ کے میرے اجداد کی ایسی جرات کیوں ہو کہ وہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پہ عمل کرنے پہ ہمیں سرزنش کریں ۔۔چلیں وہ تو اپنی کم علمی میں کر ہی لیں تو آپ کے علم نے اگر آپ کو اس غلط (اور دست بستہ معذرت کیساتھ سخت مگر درست الفاظ میں کہوں تو جاہلانہ) تصور کی فخریہ ترویج سے نہیں روکا تو خدا کی قسم اس علم کو چولہے میں جھونک دو۔
ہمارے آباؤاجداد کی روایات میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور میرے رب کے دین سے زیادہ معتبر تو نہیں۔
اس لئے پھر کہتی ہوں کہ حکمت سیکھئے ،دین کو سمجھئے ،دین اور معاشرتی ثقافت کو یکجا کرنے بلکہ سماجی رسم و رواج کو دین سے بالاتر ثابت کرنے کی آپ کی کوشش کہیں اللہ کے ہاں آپ کی پکڑ کا سبب نہ بن جائے۔
اگر آپ اصلاح کے طریقوں سے نابلد ہیں تو خدا کیلئے عورتوں پہ نہیں اپنی آنے والی ان نسلوں پہ رحم کیجئے جنہوں نے انہی عورتوں کی گود میں پرورش پانی ہے اصلاح کرنے کی خواہش ترک کر دیجئے
یا پھر اتنا ہی اصلاح کا کیڑا کاٹ رہا ہے تو جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ،اور جس رب کے دین کا سہارا لیتے ہو ان سے حکمت بھی سیکھ لو محض کہانیاں گھڑ لینا حکمت نہیں ہے
اگر آپ کے لفظ آپ کی کہانیاں بگاڑ پیدا کر رہی ہیں فساد کو ہوا دے رہی ہیں تو کچھ دیر کو رک کر اپنی لکھت پہ غور کر لینے اور اسے پراثر بنانے کیلئے ترمیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں وگرنہ قرآن کی باقی آیات کے ساتھ ساتھ اس آیت کو بھی ذہن میں رکھا کیجئے۔
“اور جب ان سے کہا جائے زمین میں فساد پیدا نہ کرو تو یہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں حالانکہ یہی سچ مچ کے فسادی ہیں”
اب فیصلہ آپ کا
حکیم بن کر عوام کے نبض شناس بن کر معاشرے کی فلاح میں حصہ دار بننا ہے
یا
تکبر کا سریا گردن میں ڈال کر، بنا حکمت بات کر کے فساد کو ہوا دینی ہے؟
پرووکنگ جانتے ہیں ناں آپ؟
اکسانا ،کسی کو کسی کام یا
جرم کیلئے اکسانا
یا سادہ لفظوں میں کہوں تو
چہ دلانا۔۔دوسرے کو زچ کرنا اور مقابلہ بازی کیلئے چہ دلانا
آپ کے یہی رویئے ہی ہیں جو عورتوں کو چہ دلاتے ہیں، مقابلہ بازی پہ اکساتے ہیں اور یہی رویئے عورت مارچ کے ان سلوگنز کا سبب بنتے ہیں جنہیں پڑھ کر آپ تتے توے پہ چڑھ بیٹھتے ہیں
اور آپ کو معلوم ہے
ان بقول آپ کے تیس پینتیس فیمنسٹوں کی طاقت کون یے؟
آپ کے گھروں میں بیٹھی وہ عورتیں جو فیمنسٹ نہیں ہیں مگر آپ کی برتری کے غرے ،انہیں کم تر کہنے، سمجھنے اور حقارت سے یہ احساس دلانے کے رویئے ہیں جن کی وجہ سے وہ بھی چپکے چپکے دعا کرتی ہیں کہ
اللہ کرے یہ فیمنسٹیں تم لوگوں کا غرور خاک میں ملا دیں
آپ کو تو شاید معلوم ہی نہیں آپ کی عین ناک کے نیچے گھروں میں بیٹھی یہ عورتیں بھی
پروین شاکر کی نظم میں رقم بادشاہ سلامت کے خون میں سِنے خنجر کو دھونے والی وہ کنیزیں بنتی جا رہی ہیں
جو اب خنجر پہ لگے لہو کو چپکے چپکے سے اپنی زبان سے چاٹ رہی ہیں۔
انہیں خون کی لت لگ گئی تو بچنا کچھ بھی نہیں
بادشاہ سلامت۔۔۔