Headlines

پیشہ ور بھکاری – میاں اسامہ صادق

Spread the love

پیشہ ور بھکاری – میاں اسامہ صادق

آج سے کچھ دہائیاں قبل مانگنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لوگ اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کرتے تھے۔ اپنے حالات کا تذکرہ کسی سے نہ کیا جاتا تھا۔ زندگی میں جو بھی حالات چل رہے ہوتے زبان پہ بس شکر الحمد الله ہوتا تھا۔ جمعرات والے دن کچھ الله لوگ اور ملنگ روٹی لینے آتے تھے۔ کچھ لوگ روشنی کے لیے سرسوں کا تیل بھی لیتے تھے۔ یہ الله لوگ ملنگ منفرد انداز میں لوگوں کو اپنی طرف مدعو کرتے تھے۔ کچھ الله کی نعمتیں بیاں کر رہے ہوتے تو کچھ نعتیں سنا رہے ہوتے۔ ان کی زبان میں اک سحر ہوتا تھا۔

لوگ اپنی مرضی سے کچھ دے دیتے تو دعائیں دیتے اور اگر کوئی کسی مجبوری کی بنا پر کچھ نا دے پاتا تو اسکے رزق کی فراوانی کیلئے بھی دعائیں دے کے جاتے۔ ایسے لوگوں کی دعائیں دل سے نکلتی تھی۔ اور الله اپنے مقرب بندوں کی دعائیں سنتے بھی ہیں۔ اس کے برعکس آج کے زمانے میں پیشہ ور بھیکاریوں کی کمیٹیاں بن گئی ہیں ۔ انہوں نے علاقے بانٹے ہوئے ہیں۔ یہ بھیکاری کم اور غنڈے بدمعاش زیادہ ہیں۔

اکثر ان میں جرائم پیشہ افراد ہوتے ہیں۔ دن میں ان کی عورتیں مانگتی ہیں اور گھروں کا جائزہ لیتی ہیں اور شام کو ان کے مرد واردات ڈالتے ہیں۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں شہر، بس سٹینڈ، ٹیکسی سٹینڈ، ریلوے اسٹیشن، اسپتال، مساجد، سکول کالج یونیورسٹی، چلتی شاہراہوں پر، اشاروں پر، بیچ سڑکوں پر شادی بیاہ پر میتوں پر نیز کوئی بھی جگہ دیکھ لیں یہ بھیکاری وہاں موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک امیر آدمی سے زیدہ امیر ہوتے ہیں مڈل کلاس آدمی تو انکے برابر کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ مانگتے نہیں بلکہ بدمعاشی کرتے ہیں۔ انہیں دس بیس پچاس کا نوٹ دیا جایے تو یہ لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ تو اتنی غلیظ ترین گالیاں دینے لگ جاتے ہیں کہ آدمی اپنی فیملی کے ساتھ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ اسپتالوں میں جہاں لوگ پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں یہ بھیکاری وہاں اپنی چال چلتے ہیں۔ انکو کوئی دو تین سو سے کم پیسے دے تو یہ لوگ وہاں بددعائیں دینا شروع کر دیتے کہ تیرے مریض کو یہ ہو جائے وہ ہو جائے۔ بے شک ایسے لوگوں کہ بددعائیں اثر نہیں کرتیں مگر ہم کمزور ایمان کے لوگ ایسی حالت میں ڈر جاتے ہیں اور انکے مطالبات پورے کرتے ہیں۔

سکول کالج یونیورسٹی میں انکا مختلف طریقہ واردات ہوتا یے۔ وہاں یہ بچوں کو خاص طور پر وہاں پڑھنے والی ہماری بہن بیٹیوں کو فیل ہونے کی بد دعا دینا شروع کر دیتے ہیں۔ معصوم طلبہ پھر ڈر جاتے ہیں اور ان کو منہ مانگے پیسے دیتے ہیں۔ اسی طرح سفر کرتے ہوئے ٹرین بس اسٹینڈ وغیرہ پہ سے لوگ گاڑی کے حادثہ کی بددعا دینا شروع کر دیتے ہیں۔ انسان پھر لاچار ہو جاتا ہے اور ان کی باتون میں آجاتا ہے۔ کچھ عورتوں گھروں میں خاص کر گاوں میں درباروں میں چندہ مانگنے کے نام پہ آتی ہیں ہم فلاں دربار کا لنگر اکٹھا کرنے آئی ہیں ہمیں دو ورنہ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں نے چند سپارے پکڑے ہوتے ہیں۔ ان کی ڈیمانڈ یہ ہوتی ہے کہ یا تو یہ مہنگے دانوں خریدو نہیں تو ویسے آٹا ڈال دو یا پیسے دو۔ اس کے علاوہ آج کل یہ ٹرینڈ چلا ہوا ہے کہ مسجدوں میں جمعہ والے دن کچھ لوگ جعلی میڈیکل رپورٹس لے کر آجاتے ہیں اور روتے ہوئے مانگتے ہیں۔ ایسے لوگ مستحق لوگوں کا حق مارتے ہیں۔ اسکے علاوہ کچھ عورتوں اشاروں پہ بیٹھی ہوتی ہیں ۔ گاڑی رکتے ہی انکا پورا قبیلہ گاری پہ حملہ کر دیتا ہے ہے اور زور زور سے ہاتھ مارنے لگ جاتا یے۔ اگر انہیں کچھ نہ دیا جائے تو یہ گاڑی کے شیشے اور سائڈ مرر توڑ دیتے ہیں اور گرین لائٹ جل جاتی ہے بندہ گاڑی روک کہ ان کو ڈانٹ بھی نہیں سکتا۔ کچھ کوگ تو عین سڑک کے بیچ بیٹھ کے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ سالوں سے نئے بھیکاری آئے ہوئے ہیں جنہوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوتے ہیں موٹر سائیکل کے پاس کھڑے ہوتے ہیں ۔ آپ کو روکتے ہیں۔ سلام دعا کے بعد اپنا نام اور گاؤں یا شہر کا نام بتاتے ہیں اور کہتے ہیں میرا پیٹرول ختم ہوگیا ہے اور میرا بٹوا بھی گم ہو گیا ہے میرے پاس واپس گھر جانے کا پیٹرول نہیں ہے۔ آپ براہ مہربانی مجھے کچھ ہیسے دے دیں اور اپنا موبائل نمبر دے دیں میں واپس جا کے آپکے جاز کیش کروا دوں گا۔ اب بیچارہ آدمی ان کی حالت پر ترس کھا کے ان کو پیسے دے دیتے ہیں اور چند دنوں بعد انہیں کسی اور روڈ پر یہی واردات کرتے ہوئے دیکھ کر اپنی بے و قوفی پر مسکراتے ہیں۔ اسکے علاوہ اس سے ملتی جلتی واردات والے لوگ آپکو بس اسٹینڈ پہ ملیں گے انکا حلیہ بھی چوہدریوں والا ہوتا ہے۔ یہ آپکے پاس آ کے بولتے ہیں ہم بس میں سفر کر رہے تھے تو ہمارے پیسے چوری ہو گئیے ہیں اب واپسی کا کرایہ نہیں۔ معصوم بندہ سمجھتا ہے یہ حلیے سے تو مانگنے والا نہیں لگتا تو اسے کرایہ دے دیتا ہے۔۔ اسلے علاوہ کچھ لوگ پاگل پوتے کا ناٹک کرتے ہیں کچھ ننگے گھوم رہے ہوتے ہیں اگر انہیں کچھ نا دیں تو یہ گالیاں نکالنا شروع کر دیں گے۔ اگر انہیں ڈانٹ دیا یا تھپڑ مار دیا تو ہماری عوام میں موجود فرشتہ جاگ جاتا ہے اور ہماری ہی بے عزتی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مستحق لوگوں کا حق کھایا ہوا ہے۔ انکی وجہ سے اصل اور ضرورت مند لوگوں تک ہماری امداد نہین پہنچ پاتی۔ بیچارہ سفید پوش آدمی آپنے حالات سے تنگ آ گر خود کشی کر لیتا ہے مگر کوئی انکی امداد نہیں کرتا۔ اسلام بھی سب سے پہلے اپنے قریبی رشتوں پر سخاوت کا کہتا ہے۔ اسکے بعد دور کے رشتہ دار پھر جاننے والے پھر ہمسائے پھر محلہ والے پھر بستی والے پھر شہر والے ۔ ہم انکو چھوڑ کر بھیکاریوں کو مجبوراً دے دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں تنگ ہی اتنا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دینا بالکل بند کر دیں ایک بات سمجھ لیں کہ یہ مستحق نہیں ہیں بدمعاش ہیں انکی بددعائیں اثر نہیں کرتی ان کے کہنے سے آپکا مریض مرے گا نہیں انکے کہنے سے آپ فیل نہیں ہوگے انکے کہنے سے آپ غریب نہیں ہونگے ۔ خدا کے لیے وہم پرستی سے باہر آئیں ۔ اپنے صدقات و امداد مستحق لوگوں تک پہنچائیں ان لوگوں کو کچھ نا دیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ان لوگوں پر کاروائی کرے۔ انکی بدمعاشی کو ختم کرے ۔ انکے سرغنہ لوگوں کو پکڑے سزا دے۔ اور میرا آپ سب لوگوں سے سوال ہے کہ ہم کب تک ان پیشہ ور بھیکاریوں کم بدمعاشوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بنے رہیں گے ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from gNews Pakistan

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading