تعظیم معلم…میاں اسامہ صادق
ایک انسان کی کامیابی و ناکامی میں اسکے معلم کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ انسان کی پہلی درسگاہ اسکی ماں ہوتی ہے۔ اسکے بعد وہ اپنے معلم سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ انسان زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ وہ سیکھنا کبھی بند نہیں کرتا۔ ایک اچھا معلم اپنے شاگر کی زندگی سنوار دیتا ہے۔یہ اعزاز صرف اساتذہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ وہ بےعلمی اور جہالت کی تاریکیوں کے پردے چاک کرتے ہیں اور علم و فن کی شمعیں روشن کرتے ہیں. غریب ہوں یا امیر،سبھی ان سے فیض یاب ہوتے ہیں اور نیکی و بدی ،اچھائی و برائی کی تمیز حاصل کرتے ہیں اور پستی سے اٹھ کر ترقی و عظمت کے آسمان پر پرواز کرتے ہیں. اساتذہ کرام سماج کےلیے مفید اور باشعور شہری، ملک و قوم کےلیے کارآمد افراد تیار کر کے مستقبل کی قوت اور مشینری فراہم کرتے ہیں. وہ ہر قسم کی بدی و ضلالت کے مقابلے میں چٹان کا کردار ادا کرتے ہیں. اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے “مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے” اس طرح اساتذہ کرام پیغمبر خدا حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور ریفارمر، مصلح کا کردار ادا کرتے ہوئے افراد کے اخلاقی عوارض کا خاتمہ کر کے انہیں نیکی اور اعلیٰ کردار کی عظمت سے آراستہ کرتے ہیں. معلمین کی عظمت و بڑائی کا اندازہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے “خدا کی قسم! اگر تمہارے (یعنی اہل علم) کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ ایک آدمی کو بھی راہ راست پر لائے تو وہ تمہارے لیے سو سرخ اونٹوں سے بہتر ہے” اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مشہور قول ہے کہ جس شخص نے مجھے ایک لفظ سِکھا دیا وہ میرا استاد ہے اور لیے واجب الاحترام ہے. والدین بچے کی جسمانی پرورش و کفالت کرتے ہیں لیکن اساتذہ روحانی و ذہنی تربیت اور شخصیت کی تکمیل کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کو عزت، ترقی اور کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں اسی لیے استاد کو روحانی باپ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک استاد بھی اپنے شاگردوں کو اپنے بچوں کی طرح رکھتا ہے۔ ان سے شفقت کرتا ہے محبت کرتا ہے غلطی کرنے پہ ان کو ڈانٹتا ہے ان سے ناراض ہوتا ہے۔ ایک طالب علم تب تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے استاد اپنے معلم کی تعظیم دل سے نا کرے۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا گیا کہ آپ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے ہیں، تو آپ سے کہا گیا کہ:آپ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد ہیں اور آپ اس انصاری کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے ہیں؟!تو آپ نے فرمایا:’’ضروری ہے کہ عالم کی تعظیم کی جائے اور انہیں مناسب مقام ومرتبہ عطا کیا جائے۔ سب محنتوں سے اعلی درجے کی محنت اور کار گذاریوں میں سب سے زیادہ قیمتی کارگذاری ملک کے معلموں ہی کی ہے ۔ معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے ۔ کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔شاگرد کو چاہیے کہ خود کو ایسا جاہل سمجھے گویا وہ پہلے روز استاد کے پاس آیا ہے ۔ اور یہ سمجھے کہ جو بھی علمی فائدہ اسے پہنچا ہے وہ استاد نے ہی پہنچایا ہے ۔ تا کہ تعلیم کی برکات زندگی میں اس کے ساتھ باقی رہیں۔ہارون رشید کے دربار میں جب کوء عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے .اس پر انکے درباریوں نے ان سے کہا اے بادشاہ سلامت! اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقیناًوہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے.آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے۔ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ استاد کے ادب واحترام کو اپنے اوپر لازم سمجھے،استاد کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے انکی باتوں کو بغور سماعت فرمائیں لیکن کوئی بات سمجھ نا آئے تو اس بارے میں پوچھ لیا جائے۔ استاد کو کبھی ناراض نہ ہونے دیں،اگر انکی شان میں کوء بے ادبی ہوجائے تو فورا انتہاء عاجزی کے ساتھ معافی مانگ لیں.
ان تمام دلائل وبراہیں اور اور اقوال سلف سے معلوم ہوا کہ استاد کی عزت اور ان کا مقام ومرتبہ امر مسلم ہے جس کا انکار کوئی بھی فرد وبشر نہیں کر سکتا.لہذا ہم سبھوں پر واجب ہے کہ ہم اپنے استاد کی عزت کریں انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔