کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ مارکس کو یہود کا مودودی کہوں یا مودودی کو مسلمانوں کا کارل مارکس ۔۔۔۔مگر دونوں میں ایک بات مشترک تھی ۔۔۔۔دونوں یوٹوپیا کے موجد تھے۔۔۔مارکس کا یوٹوپیا اشتراکی تھا جبکہ مودودی صاحب نے اپنے یوٹوپیا کے ختنے کرکے اسے مشرف با اسلام کر لیا تھا۔۔۔۔
نہ تو اشتراکی معاشرے کو انسان دیکھ پایا ہے اور نہ مودودی صاحب کے اسلامی نظام کو۔۔۔۔۔۔مگر دونوں کے پیرو کاروں کو اپنی اپنی جنت کے ظہور ہونے کا یقین ہے۔۔۔۔
کارل مارکس کی زندگی جتنی دلچسپ تھی اس کا مارکسزم مجھے اتنا ہی بورنگ لگا۔۔۔۔۔ابے سب کو برابر کردو۔۔۔۔برابری کے لیئے معاشی پیداوار کی برابر تقسیم ضروری ہے تاکہ کوئی ایک دوسرے کا استحصال نہ کر سکے۔۔۔نجی ملکیت کو معاشرتی ملکیت کے آگے سرنڈر کر دو۔۔۔۔یہ کیا ہے بھائی ۔۔۔۔۔۔اتنا بورنگ نظام ۔۔۔میں یہاں مارکس کے فلسفے جھاڑ کر آپ کے دماغ کا دہی نہیں کروں گا۔۔۔کہ مادی جدلیات کیا ہے۔۔۔سرپلس ویلیو کیا ہے۔۔۔۔پرولتاریہ اور بورژوا کے مابین کیا تعلق یے۔۔۔۔مارکس کا فلسفہ بیگانگی کیسے محنت کار کو اپنے تخلیق سے بیگانہ کر دیتا ہے۔۔۔۔۔نہ بھائی ۔
۔
میں بس اتنا کہوں گا۔۔۔۔۔کلیم بے تجلی کے بغل میں جو کتاب تھی اس کا حال ٹھیک مسیح با صلییب کی کتاب کی طرح ہوا۔۔۔۔
برابری تو اللہ میاں بھی نہیں چاہتا وہ خدا ہو کر متقی پرولتاریہ اور گناہ گار بورژوا کے مابین فرق رکھتا ہے تو مارکس کیسے انھیں برابر کر کے غیر طبقاتی نظام تشکیل دے سکتا ہے۔۔۔۔جہاں سب برابر ہوں۔۔۔۔سب کو ان کی صلاحیت نہیں ضرورت کے مطابق تنخواہ ملے۔۔۔چاہے بندے کی کھوپڑی میں دماغ نیوٹن والا ہو مگر تنخواہ اسے مولوی گھمن والی ہی ملے گئی۔۔۔۔۔۔
سوچئے کتنی بورنگ ہو جائے دنیا جب سب طرف برابری ہو۔۔۔۔۔نجی ملکیت ہی نہ ہو۔۔۔۔۔استنجے کے لیئے لوٹے کے واسطے بھی آپ ریاست کے محتاج ہوں۔۔۔۔معاشرے کو متنوع اور خوبصورت طبقاتی تقسیم ہی بناتی ہے۔۔۔۔۔طبقاتی تقسیم اور کشمکش سے نئی تخلیقات سامنے آتی ہیں۔۔۔۔ادب بھی اسی کی کھوکھ سے پروان چڑھتا ہے۔۔۔مذاہب اسی تقسیم کے بطن سے نکلتے ہیں ۔۔۔جمالیات آرٹ شاعری فلسفہ سب طبقاتی تقسیم میں ہی پروان چڑھتا ہے۔۔۔۔یہ سب چیزیں مل کر معاشرے کو مزید دلکش بناتی ہیں۔۔۔۔
اگر فرعون ،قارون اور موسی سب کو ہی برابر کر دیں تو وہ ایک مصنوعی انقلابی معاشرہ تو ہوسکتا ہے مگر خالص انسانی معاشرہ نہیں ۔۔۔۔۔
جیسے مذہب کا ولن شیطان ہے تو اشتراکیت کا ولن سرمایہ دار ہے۔۔۔۔شیطان کا جرم اتنا تھا کہ اس نے اللہ میاں کے کہنے سجدہ نہیں کیا تھا ۔۔۔اور سرمایہ دار کا قصور بس اتنا ہی وہ کارخانہ لگانے کی جرم کرتا ہے اور ویلے مزدروں کو نوکری پر رکھ لیتا ہے۔۔۔۔۔کچھ عرصے بعد مزدور سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دار ان کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔۔۔ان کو ان کی محنت کے مطابق بیگار نہیں مل رہی ۔۔اس کا حل مارکس صاحب نے یہ دیا ہے کہ مزدور بغاوت کر کے سرمایہ دار سے سے سارا کچھ چھین کر معاشرہ یعنی خود میں بانٹ لیں۔۔۔اور آئندہ کوئی اس طرح مزدوروں کا استحصال نہ کر سکے اس کے لیئے ضروری ہے نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے ۔۔۔۔۔ساری اشتراکی فلسفیانہ موشگافیوں سے قطع نظر یہ مارکسزم کی عملی شکل ہے۔۔۔۔
سب سے پہلی بات یہ ہے ۔۔۔۔اگر مزدوروں میں اتنی ہی قابلیت تھی ان ہی دم پر سرمایہ دار سر پلس ویلیو کے نوٹ چھاپ رہا ہے تو بھئی مزدور سرمایہ دار کو گالی دینے کے بجائے خود کار خانہ کیوں نہ لگا سکے۔۔۔کیوں مشین اور لیبر کو یکجا کر کوئی پراڈکٹ نہ بنا سکے۔۔۔۔کیونکہ یہ کام مزدور طبقے کا بس کا نہیں ۔۔۔۔۔
مارکسزم کی عملی شکل رابن ہڈ والی ہے ۔۔۔ابے امیروں سے کھینچ کر غریبوں میں برابر بانٹ دو۔۔۔۔سرمایہ دار کو لوٹ کر برابری قائم کرنے والے کبھی بھی معاشی ترقی کے قابل نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔کیونکہ اشتراکی مال غنیمت سے انقلابی عیاشی تو ہو سکتی کے مگر معشیت کا وہ بڑا نظام نہیں چل سکتا جو سرمایہ داروں کی موجودگی میں چلتا ہے۔۔۔۔جہاں بھی مزدوروں کی آمریت یعنی اشتراکیت قائم ہوئی ہے اور سرمایہ دار کو ختم کیا گیا ۔۔۔۔کچھ عرصے بعد ہی معاشی زوال شروع ہو گیا۔۔۔۔کیوبا اس کی بہترین مثال ہے۔۔ایک وقت میں روس میں بھی یہی حال تھا۔۔۔۔۔
سر مایہ دارانہ نظام میں بے شک خامیاں ہیں مگر یہ ارتقائی نظام ہے نہ انقلابی اس لیئے کامیاب بھی ہے۔۔۔۔کیونکہ سرمایہ داری میں مواقع بہت ہیں ۔۔۔جب اشتراکیت کا مرد مومن ہمیشہ مرد مزدور ہی رہتا ہے۔۔۔۔
پچاس ساٹھ کی دہائی میں ایک اصطلاح آئی تھی اسلامی شوشلزم ۔۔۔۔کچھ سکالرز نے سوشلزم کو بھی کلمہ پڑھوا دیا تھا۔۔۔۔۔مسٹر غلام احمد پرویز صاحب بھی انہی بھی شامل تھے ۔۔۔۔ ان کی کتاب نظام ربوبیت اسلامی سوشلزم کا “مینیو فیسٹو “ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی سوشلزم کی اصطلاح بھی ایسی ہی جیسے کوئی شراب کی بوتل پر اسلامی وہسکی کا لیبل لگا دے۔۔۔کیونکہ اسلام سے بڑھ کر سرمایہ دار مذہب کوئی ہے ہی نہیں ۔۔۔مگر پرویز نے پھر بھی کہیں نہ کہیں سے کھود کر اسلام میں سے اشتراکیت نکال ہی لی۔۔۔۔۔۔
مگر چاہے پرویز ہو یا مولانا مودودی یا پھر مولانا کارل مارکس ۔۔۔یہ سب یوٹوپیا میں رہنے والے تھے ۔۔۔اور یوٹوپیا کو پیروکار بہت ملتے ہیں جب کہ حقیقت کا سامنا کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں ۔۔۔