وہ خواب جو امکان کی حد گمان سے بھی پرے کے ہوں وہ جب تعبیر میں ڈھل جاتے ہیں تو بے اختیار جی چاہتا ہے کہ ان آنکھوں کو چوم لیا جائے جنہوں نے اس خواب کو سینچا، آبیاری کی اور پروان چڑھایا.
سوق عکاظ سے مجھے دلی انسیت رہی ہے. اور یہ نسبت کسی خاص وجہ سے تھی جس کے بعد مدت مدید سے خواہش رہی تھی کہ سوق عکاظ کو دیکھوں اور اس زرخیز مٹی کا بیدار لمس پور پور میں جذب کرکے دائم ثبت کروں.
کئی بار اس کی اغل بغل سے گزرا مگر کبھی یوں ہوا کہ عجلت رہی اور موقع میسر نہ ہوا، کبھی مقام ہی فراموش کرا دیا گیا اور کبھی کوئی اور سبب آڑے آجاتا رہا کہ سڑک پر لگے بورڈ کو حسرت سے دیکھتا گزر جاتا رہا اور باوجود وسائل ہونے کے ادھر رخ نہ کر سکا.
چند دن قبل غلطی سے گاڑی طائف جانے والے رستے پر چلی گئی اور پھر جب طائف کی بلندیوں پر پہنچ کر سوق عکاظ کا بورڈ دکھائی دیا تو دبی خواہش پوری طرح بیدار ہو گئی اور اللہ کا نام لے کر منہ ول سوق عکاظ کر لیا.
زمانہ قبل از اسلام بھی لوگ دور دراز کا سفر طے کرکے حج کرنے کے لیے آتے تھے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عرفات میں قیام سے پہلے سوق عکاظ میں جمع ہونا بھی ان کے حج کا رکن بن گیا اور زائرین سوق عکاظ میں حاضری دیے بغیر حج کو نامکمل گرداننے لگے. یوں تو منڈی اور بازار سارا سال ہی کھلے رہتے تھے مگر یکم ذیقعد سے بیس ذیقعد تک ثقافتی میلہ سجتا تھا اور اسی میلے کے باعث سوق عکاظ کو یہ مقام حاصل رہا ہے کہ بلاد الشام اور بلاد الیمن کے تجارتی قافلوں کے علاوہ عکاظ جزیرہ نما عرب کی معاشی منڈی اور نمایاں تجارتی مرکز بن گیا. غلاموں کی خرید و فروخت، قصیدہ گوئی، ثقافتی میلے، اور حسب و نسب پر فخر و غرور کے مقابلوں کے علاوہ طویل عرصہ تک جاری رہنے والی جنگوں کا حل، قبائلی لڑائی جھگڑوں میں صلح صفائی، شادی بیاہ کے معاملات تک ان بیس دنوں میں انجام پاتے اور لوگ سال بھر ان بیس دنوں کا انتظار کرتے تاکہ اپنے مسائل جید سرداروں کے سامنے رکھ کر ان کا حل تلاش کرسکیں.
عرب میں اس وقت نثر کو مقبولیت حاصل نہیں تھی اور نہ ہی کوئی نثر نگار وہاں تھا، سوق عکاظ میں قادر الکلام شعرا شعر کہتے اور نامور خطیب فن خطابت کے جوہر دکھاتے اور متفقہ طور پر نامزد معزز شخص سرخ رنگ کا عمامہ باندھے شعرا کی ٹولیوں کے عین وسط میں بیٹھ کر ان قصیدوں کی جانچ پڑتال کرتا اور حسبِ معیار ان کی درجہ بندی کرتا. وہاں پر ہی مرثیہ خوانی کی موجد خنسا نے عالمی شہرت پائی اور اس کے مقابلے میں کوئی بھی مرد و عورت نہ ٹھہر سکے حتیٰ کہ ایک بار ایسا ہوا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قصیدوں پر لوگ سر دھن رہے تھے اور خنسا نے کھڑے کھڑے اس قصیدے کو یوں رد کیا کہ لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں اور اس کی علمی قابلیت کے متعرف ہوگئے.
ہزاروں شاعر اپنا ہنر آزماتے اور جس قادر الکلام کا شعر کسی کے دل میں ترازو ہوجاتا تو وہ پھر اس میلے سے اپنے وطن یا قبیلے کو لوٹتے ہوئے تمام سفر وہی شعر گنگناتا رہتا، حتیٰ کہ لوگوں کو یاد ہوجاتا اور وہ اپنے گھر کی عورتوں کو بھی یاد کروا دیتے پھر عورتیں ان شعروں کو لوریوں کی صورت اپنے بچوں کو سناتی.
ایک دفعہ نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم نے نامور خطیب قیس بن ساعدہ کو سنا تو خوب تعریف کی. مشہور صحابی رسول زید بن حارث رضی اللہ عنہ کو بھی وہاں سے ہی خریدا کر انمول کر دیا گیا تھا.
میلے کے بیس دنوں میں جتنے بھی شاعر انعام یافتہ قرار دیے جاتے اور ان کے اشعار کو دیگر پر فوقیت حاصل ہوجاتی تو پھر بلاد الیمن سے آئے ریشم کے کپڑے پر سونے کی تاروں سے ان قصیدوں کو لکھا جاتا اور کعبہ شریف کی دیوار پر آویزاں کردیا جاتا تھا، یوں وہ قصیدے اگلے ایک سال کے لیے وہاں لٹکے رہتے جنہیں معلقات کہا جاتا تھا یعنی آویزاں کیے ہوئے. قرآن کریم کے نزول تک دیوار کعبہ پر سات قصیدے لٹکے ہوئے تھے جنہیں تاریخ نے سبعہ معلقات کے نام سے محفوظ کر لیا تھا وہ سات قصیدے ان شاعروں کے تھے “۔ ١- امراؤ القیس ۲۔ زہیر بن ابی سلمیٰ ۳۔ عمرو بن کلثوم التغلبی ۴۔ طرفہ ابن عبدالبکری ۵۔ عنترہ بن شدادالعبسی ۶۔ لبید بن ربیعہ العامری ۷۔ حارث بن حلزہ الیکشری۔”
میں سوق عکاظ کی زرخیز مٹی میں جاکر دعا مانگنا چاہتا تھا کہ میری مناجات کو کم از کم اتنی پرواز تو ملے کے میری حاضری سے پہلے وہ کعبہ کی دیوار پر جاکر آویزاں ہوجائے اور بڑے دربار میں اذن باریابی کی سفارش ہوجائے.
میں سوچتا ہوں کہ دل بھی عکاظ جیسا ہونا چاہیے اور ہماری طلب، خواہش، مناجات، دعا میں اتنی تو شدت اور خلوص ہونا چاہیے کہ وہ لبوں سے نکلے اور پرواز کرتے ہوئے بارگاہِ ربی میں یوں منظور ہوکہ سند قبولیت کے بعد تاعمر دیوار کعبہ پر آویزاں ہوجائے.