شہید وفا
پابند سلاسل قیدی جو قید سے زیادہ اپنے محبوب کی جدائی سے فسردہ و مضطرب تھا۔ قید و بند کی سختیاں جھیلتا رہا اور جب وقت آخر آیا تو اس برتر و اعلیٰ کے حضور پیش ہونے سے پہلے اس نے اپنی طہارت و پاکیزگی ضروری جانی۔ صفائی کے لیے استرے کا طلب گار ہوا۔ ابھی وہ صفائی کر ہی رہا تھا کہ ان جابروں کا چھوٹا بیٹا گھسیٹا ہوا اس قیدی کے قریب چلا گیا اور اس قیدی نے از راہ شفقت سے اسے اپنے زانو پر بیٹھا لیا۔ یہ منظر دیکھ کر اس بچے کی ماں بد حواس ہو گئی اور یقین کر لیا کہ قیدی انتقاماً استرے سے اس کے بچے کی جان لے لے گا۔ قیدی نے ماں کی بے چینی دیکھی تو ہنستے ہوئے بچے کو زانو سے اتار دیا اور کہا کہ یہ ہماری تربیت نہیں ۔ یہ قیدی کوئی اور نہیں بلکہ ایک انصار مدینہ اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
” حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ” تھے ۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ سنہ 4 ھ ماہ صفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور ذکر کیا کہ ان کے اندر اسلام کا کچھ چرچا ہے لہزا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہمراہ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن پڑھانے کے لیے روانہ فرما دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عاصم بن ثابت کو دس اصحاب پر امیر بنا کر ان کے ہمراہ روانہ کر دیا۔ جب یہ لوگ قبیلہ ہذیل کے رجیع نامی ایک چشمے پر پہنچے تو ان پر عضل اور قارہ کے مذکورہ افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو چڑھا دیا اور بنو لحیان کے کوئی سو تیر انداز ان کے پیچھے لگ گئے اور نشانات قدم دیکھتے ہوئے انہیں جا لیا۔ یہ صحابہ کرام ایک ٹیلے میں پناہ گزین ہوئے ۔ بنو لحیان نے انہیں گھیر لیا اور کہا
” تمہارے لیے عہد و پیمان ہے کہ اگر ہمارے پاس اتر آؤ تو ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے ۔
“حضرت عاصم نے اترنے سے انکار کیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کر دی مگر کب تک؟ بالاآخر تیروں کی بوچھاڑ سے سات صحابہ شہید ہو گئے اور صرف تین صحابی حضرت خبیب بن عدی ، حضرت زید بن دثنہ اور حضرت عبداللہ بن طارق باقی بچے۔ اب پھر بنو لحیان نے اپنے عہد دہرائے اس پر یہ تینوں صحابہ کرام ٹیلے سے نیچے اتر آئے لیکن ان اصحاب پر قابو پاتے ہی بنو لحیان نے بد عہدی کی اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا اس پر حضرت عبداللہ بن طارق بپھر گئے اور کہا
یہ بد عہدی ہے اور ان کی حمیت نے قید ہونا گوارا نہیں کیا اور وہ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ تاریخ میں یہ سانحہ
“رجیع کا حادثہ” کے عنوان سے رقم ہے۔
بنو لحیان نے نے دونوں صحابہ کرام کو مکہ لے جا کر فروخت کر دیا۔ حضرت زید بن دثنہ کو صفوان بن امیہ نے خرید کر، جنگ بدر میں ان کے ہاتھوں واصل جہنم ہونے والے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیا۔ حضرت خبیب بن عدی کو حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خریدا۔ حضرت خبیب نے جنگ بدر میں مکہ کے سردار حارث بن عامر بن نوفل کو قتل کیا تھا۔
عقبہ بن حارث نے انہیں اپنے گھر میں قید رکھا اور ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائیں اور ان کی نگرانی پر موہب کو مامور کیا۔ عقبہ کی بیوی کھانے کے لیے ان کے ہاتھوں کو کھول دیا کرتی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ خبیب کے پاس اکثر انگور کے خوشے ہوا کرتے تھے جب کہ مکہ میں اس وقت انگور کی فصل کا موسم نہیں تھا اور مکہ میں انگور کا ایک دانہ بھی دستیاب نہ تھا۔ اس کا یہ بھی بیان ہے کہ میں نے خبیب بن عدی سے بہتر قیدی کبھی نہیں دیکھا۔
جب اشہر حرم گزر گئے تو ان کے قتل کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ انہیں حرم سے باہر تنعیم لے گئے ۔ جب سولی پر چڑھانے لگے تو حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت مانگی۔ جب سلام پھیر چکے تو فرمایا ” بخدا اگر تم لوگ یہ نہ کہتے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں گھبراہٹ کی وجہ سے کر رہا ہوں تو میں کچھ اور طول دیتا۔ ” اس کے بعد فرمایا کہ
” اے اللہ !! انہیں ایک ایک کر کے گن لے، پھر انہیں بکھیر کر مارنا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑنا۔ “
(ان کی یہ بد دعا سال گزرنے سے پہلے حرف بہ حرف پوری ہوئی)
پھر یہ اشعار پڑھے
” لوگ میرے گرد گروہ در گروہ جمع ہو گئے ہیں ، اپنے قبائل کو چڑھا لائے ہیں اور سارا مجمع جمع کر لیا ہے۔ اپنے بیٹوں اور عورتوں کو قریب لے آئے ہیں اور مجھے ایک لمبے مضبوط تنے کے قریب کر دیا گیا ہے۔ میں اپنی بے وطنی و بیکسی کا شکوہ اور اپنی قتل گاہ کے پاس گرہوں کی جمع کردہ آفات کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں ۔ اے عرش والے !! میرے خلاف دشمنوں کے جو ارادے ہیں اس پر مجھے صبر دے۔ انہوں نے مجھے بوٹی بوٹی کر دیا ہے۔ انہوں نے مجھے کفر کا اختیار دیا ہے حالانکہ موت اس سے
کمتر اور آسان ہے۔ میری آنکھیں آنسو کے بغیر امنڈ آئیں ۔ میں مسلمان مارا جاؤں تو مجھے پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں کس پہلو پر قتل ہوں گا۔ یہ تو اللہ کی ذاتِ کے لیے ہے اور وہ چاہے تو بوٹی بوٹی کیے ہوئے اعضاء کے جوڑ جوڑ میں برکت دے۔ “
طبری اور سیرت ابن ہشام جلد دوم اور رحمت اللعالمین جلد اول میں ہے کہ سیدنا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب سولی کے لیے تختہ دار پر چڑھایا گیا تو ایک لعین نے ان کے جگر پر تاک کر نیزہ مارا جس پر ابو سفیان نے حضرت خبیب سے کہا: ” کیا تمہیں یہ بات پسند آئے گی کہ تمہارے بدلے محمد ہمارے پاس ہوتے اور ہم ان کی گردن مارتے(نعوذ باللہ) اور تم اپنے اہل و عیال میں رہتے؟”
حضرت خبیب نے کہا ” نہیں! واللہ مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال میں رہوں اور اس کے بدلے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جہاں آپ ہیں وہیں رہتے ہوئے کانٹا چبھا جائے اور آپ کو تکلیف دے۔”
پھر ان سے کہا گیا کہ تم اسلام چھوڑ دو تمہاری جان بخش دی جائے گی ۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا
” خدا کی قسم اگر تمام دنیا کی سلطنت بھی میرے سامنے پیش کر دی جائے تب بھی میں اسلام نہیں چھوڑ سکتا۔”
مشرکین نیزوں ، برچھوں اور تیروں سے ان کے جسم کو چھیدتےجاتے اور ان سے اس قسم کے سوال و جواب کرتے جاتے ۔
سولی پر حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی حسرت سے کہا
“یا اللہ!! میں یہاں کسی کو نہیں پاتا جس کے ذریعے میں اپنا آخری سلام تیرے پیارے نبی کو پہنچا سکو لہزا تو میرا سلام ان تک پہنچا دے۔”
مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں دوران مجلس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا آخری سلام بذریعہ وحی پہنچایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے با آواز بلند
” وعلیکم السلام ” کہا۔
صحابہ کرام کے استفسار پر انہیں حضرت خبیب کی شہادت کی خبر دی۔
حضرت خبیب بن عدی کے زخموں سے چھلنی جسم کو عقبہ بن حارث اور مغیرہ عبدری نے گلے میں پھندا ڈال کر بہشت بریں کا مکین کیا۔ ان کی لاش چالیس دن تک چالیس پہرے داروں کے گھیرے میں درخت سے جھولتی رہی۔ چالیس دن گزرنے کے باوجود ان کا جسم تر و تازہ تھا اور زخموں سے خون جاری تھا۔
تدفین کے متعلق دو روایات ہیں ۔
پہلی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھپتے چھپاتے مکہ تشریف لائے اور رات کی تاریکی میں پہرے داروں کی نیند سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جیسے ہی درخت سے لٹکی رسی کاٹی اور حضرت خبیب کا جسم مبارک زمین پر گر زمین نے اس مقدس جسم کو نگل لیا۔
دوسری روایت میں حضرت زبیر بن العوام اور حضرت مقداد بن اسود مدینہ سے مکہ آئے، وہ دن میں چھپ جاتے اور راتوں میں سفر کرتے۔ ان دونوں صحابہ کرام نے
پہر داروں کو نیند سے غافل پایا اور اس مشکبار لاش کو سولی سے اتارا اور گھوڑے پر لاد کر مدینہ کی طرف چلے مگر صورت حال سے آشنا ہوتے ہی مکہ کے تیز رفتار سواروں نے ان حضرات کا تعاقب کیا۔ ان دونوں نے لاش کو زمین پر رکھ دیا اور خدا کی شان کہ اسی لحظے زمین شق ہوئی اور لاش اس میں دفن ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب “بلیغ الارض” ہے۔
جب تعاقب کرنے والے قریب آئے تو حضرت زبیر نے کہا ہم دونوں شیر ہیں اور اپنے جنگل کی طرف جاتے ہیں، اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو ہمارا راستہ روک کر دکھاؤ۔ اگر تم لڑنا چاہتے ہو تو تم جس ہتھیار سے چاہو ہم مقابلے کے لیے تیار ہیں ۔
کفار حضرت زبیر اور حضرت مقداد کی تلواروں کے جوہر اور کاٹ سے آشنا تھے لہزا خاموشی سے وآپس مکہ پلٹ گئے ۔
صحیح البخاری میں مروی ہے کہ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے قتل کے موقع پر دو رکعت نماز پڑھنے کا طریقہ مشروع کیا۔
حوالاجات
بخاری 2/585
بخاری 2/574
طبقات ابن سعد 40
الرحیق المختوم
مولانا صفی الرحمن مبارک پوری