مسلکِ نوربخشیہ ایک تعارف
عنوان سے ہی واضح ہے کہ یہ مسلک آٹھویں صدی ہجری کے ایک عظیم فقیہ و ولی ،مصلح حضرت امام سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے۔
مسلک نوربخشیہ سلاسل تصوف میں سے اک نہایت عظیم سلسلہ ہے۔
یہ سلسلہ، سلسلہ ذھبیہ کے نام سے موسوم ہے۔
مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے معروف رہا ہے۔
شاہ سید محمد نوربخش تک سلسلہ کبرویہ کے نام سے موسوم و مشہور رہا۔
جب اس سلسلے کی کڑی شاہ سید محمد نوربخش پر پہنچی تو آپکے مرشد نے اک خواب کی بنیاد پر امام سید محمد رح کو نوربخش کا لقب دیا۔
آمدہ از غیب نامش نوربخش
بود چوں خورشید ذاتش نوربخش
نوربخش لقب دینے کا پس منظر کچھ اس طرح سے بیان ہوئی ہے؛
جمشید جلالی اپنی کتاب”آئینہ جمال “جو شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و آثار و افکار ،میراث معنوی کے عنوان سے لکھی گئی ہے۔لکھتے ہیں:
کہ خلیل اللہ بن رکن الدین بغلانی نے نوربخش کے بارے ایک خواب دیکھا اور اس خواب کو خواجہ اسحاق ختلانی کے محضر میں بیان کیا تو خواجہ رحمۃ اللہ نے اس خواب کے بنا پر امام سید محمد رحمۃ اللہ علیہ کو نوربخش کا لقب عطا کیا-
لیکن قاضی نور اللہ شوشتری مجالس المومنین میں لکھتے ہیں: خود خواجہ اسحاق ختلانی نے خواب دیکھا اور اپنے خواب کی بنیاد پر نوربخش لقب دیا۔اور خانقاہ کے تمام امور ،سالکین کی تربیت و ارشاد کی مکمل ذمہ داری بھی شاہ سید رحمۃ اللہ کو سونپ دیا ۔بلکہ خود خواجہ اسحاق ختلانی رحمۃ اللہ نے بھی شاہ سید کے ہاتھ پر بیعت کی۔یہ تاریخ تصوف میں اک عجوبہ و حیران کن واقعہ ہے کہ مرشد نے ہی اپنے مرید کی ہاتھ پر بیعت کی۔یہاں سے شاہ سید رحمۃ اللہ کی روحانی و معنوی بلندی،زکاوت طبع و علمی پختگی و بلوغ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
مسلک نوربخشیہ کے بارے میں دو زوایہ دید سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔اک بطور سلاسل تصوف میں سے اک سلسلہ ہونے کی حثییت سے دوسرا بطور مستقل اک فقہی و اصولی مکتب و مذھب کی حیثیت سے۔ دو جہت ،دو زاویہ دید سے پڑھنے کی،سمجھنے کی کیوں ضرورت ہے؟!
یہ واضح ہے کیونکہ باقاعدہ ایک فقھی و اصولی مکتب کی حثییت سے مذھب نوربخشیہ امام سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ کے تفردات و ابتکارات سے ہی عبارت ہے۔شاہ سید علیہ الرحمہ نے قرآن و سنت سے مستقلاً و مستقیماً استنباط و اجتہاد کرکے جو فہم حاصل کی۔ اس سے “فقہ الاحوط اور اصول اعتقادیہ کی صورت میں پیش کیا۔باقی شاہ۔سید محمد نوربخش رح سے پہلے بزرگان نے ہر دور میں اپنے فہم کے مطابق تصوف کے مخصوص عملیات،اور سالکین کی تربیت کرتے تھے۔فقھی و اصولی لحاظ سے کوئی مستقل مکتب نہیں تھا۔اس لیے ان دونوں جہت کو مدنظر رکھے بغیر مسلک نوربخشیہ کے بارہ صحیح فہم حاصل کرنا مرے خیال میں مشکل ہے۔یہاں میرا مقصود اک اجمالی تعارف پیش کرنا ہے اس لیے تفصیلی بحث ممکن نہیں۔
تصوف کے ایک سلسلے کی حثییت سے شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ کا تعلق سلسلہ زہیبہ و کبرویہ سے ہیں۔سیر و سلوک میں آپکا استاد خواجہ اسحاق ختلانی ہے۔ خود شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ اپنے رسالہ “کشف الحقائق میں لکھتے ہیں۔
اے عزیز جان لو!
کہ سلسلہ اولیاء حضرت سلطان الاولیاء و برہان الاصفیاء اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے آج تک مسلسل و معنعن ہے۔حبل اللہ متین سے عبارت حقیقت میں سلسلہ کمل مشائخ ہے۔اور تمام مسلمان و اہل ایمان پر حبل اللہ سے اعتصام واجب و لازم ہے۔ نص صریح کے حکم سے۔
“واعتصموا بحبل اللہ جمیعا”
جب یہ معنی معلوم ہوا تو جان لو اس ضعیف و نحیف ،فقیر الی اللہ القوی محمد بن محمد عبداللہ اللحصوی”حضرت شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ”کے سلسلہ کی نسبت حضرت قطب الانام مخدوم علی الاطلاق ،کامل و مکمل مرکز دائرہ انفس و آفاق حضرت خواجہ اسحاق ختلانی رحمۃ اللہ سے متصل ہے۔حضرت خواجہ اسحاق ختلانی کی نسبت امیر کبیر سید علی ہمدانی رح اسی طرح اس سلسلے کی نسبت معروف کرخی رح اور معروف کرخی نسبت امام رضا علیہ السلام اسی طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کی نسبت امام علی علیہ سے امام علی علیہ السلام سے حضرت محمد ص تک بلا انقطاع متصل ہے۔
تفصیلی مطالعہ کےلیے اہل علم “کشف الحقائق ص 221رسائل نوربخشیہ از جمشید جلالی کی طرف رجوع کیجیے ۔
اسی طرح امیر کبیر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ”دعوات شریف “میں اسی سلسلے اولیاء تو یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ حضرت محمد ص تک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں؛وھذا حبل اللہ المتین لاینقطع الی یوم الدین”یہی اللہ کی مضبوط رسی ہے۔اس رسی کےلیے قیامت تک انقطاع نہیں اور مومنین کےلیے سیدھا راستہ ہے۔
اس فرمان کے مطابق سلسلہ ذھب کا یہ سلسہ ہنوز جاری ہے۔اس سلسلے کی موجودہ کڑی حضرت سید محمد شاہ نورانی صاحب اس وقت پاکستان کے شمالی علاقہ کریس سکردو بلتستان میں مقیم ہیں۔
حضرت شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ نے سلسلہ ذھب کے ماسلف بزرگان سے ہٹ کر فروعات و اصولی مباحث پر مستقلا کتابیں لکھ کر اپنے عقائد و نظریات کی داغ بیل ڈالی ۔عالم اسلام کے تمام فقھاء و متکلمین کے صف میں شاہ سید محمد نوربخش رح بھی فقھی و اصولی مباحث میں اپنا جدا انداز و تفرد رکھتے ہیں۔جس طرح ائمہ اربعہ اہلسنت اور فقہ ظاہری سمیت فقھاء شیعہ کے احکام شرعی کے استنباط کےلیے اپنا جدا معیار و سنجش ،ادلہ و ماخذ ہیں ۔اسی طرح شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ اپنے تفردات و ادلہ رکھتے ہیں۔کیا تفردات و ابتکارات ہیں ،باقی فقھی و اصولی مذاھب سے کن مباحث میں اختلاف رکھتے ہیں یہ اک جدا موضوع ہے۔اس پر پھر کبھی خامہ فرسائی ہوگی۔
شاہ سید محمد نوربخش رح نے فروعات میں “فقہ الاحوط” اور اصول عقائد میں “اصول الاعتقادیہ”لکھ کر قرآن و سنت کی بالا دستی اور بدعات و خرافات کی نابودی کےلیے اک اہم کردار ادا کیا۔اس وقت آپکے لاکھوں پیروکار پاکستان و ہندوستان میں بستے ہیں۔اور آپکے ماننے والوں کو آپکی نسبت سے نوربخشیہ کہتے ہیں۔—– جاری ہے