اوڈیسئیس کا جائزہ –
اوڈیسئیس مردانہ وجاہت اور چالاکی کا نمونہ ٹرائے کی جنگ سے آبائی وطن لوٹتے لوٹتے 19 سال لگا دیتا ہے. اگر آپ نے ٹرائے فلم دیکھی ہے تو جان لیجیے کہ ٹرائے کی جنگ کیلیے ایکیلیس کو آمادہ کرنے والا اوڈیسیئس ہی ہوتا ہے. ہومر سے دو کتابیں منسوب ہیں ایک کا نام ایلیڈ ہے اور دوسری کا نام اوڈیسی ہے. ہومر کون تھا کوئی کہتا ہے ایک فقیر تھا جو گلیوں میں گایا کرتا تھا کوئی کہتا ہے ہومر نام کا کوئی آدمی تھا ہی نہیں یہ کتابیں کوئی کسی عورت سے منسوب کرتا ہے اور برٹرینڈ رسل کہتا ہے کہ ہومر ایک آدمی نہیں تھا بلکہ ایک گروہ کا نام تھا جنہوں نے یہ کتابیں لکھیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یونانی فلاسفروں کے نام پر سکولز آف تھاٹ موجود ہیں جیسے کہ فیثاغورثی سکول آف تھاٹ جس میں کئی فلاسفر تھا اور بہت سے لوگوں کا کام فیثاغورث کے کھاتے میں آجاتا ہے، بہرحال ہومر جو کوئی بھی تھا مگر زاتی طور پر مجھے فقیر نہیں لگتا کہ تین ہزار سال کسی بھی انٹیلیکچوئل کو آؤٹ ڈیٹڈ بنانے کیلیے کافی ہوتے ہیں مگر ہومر پرانا نہیں ہوا. اوڈیسی کی بات کی جائے تو یونانی اندازِ زندگی اور مذہب تو ابتدائی ابواب میں ہی واضح ہو جاتے ہیں. لیکن مجھ ایسے عام آدمی کو اوڈیسی کم از کم تین ہزار سال بعد بھی اگر پسند آرہی ہے تو اس کی وجہ بے مثال داستان گوئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ یونانی اندازِ زندگی جس میں فلسفیانہ احثابحثی کو بڑی اہمیت حاصل تھی، کو نظرانداز کیا گیا ہے. ہومر اپنے خیالات کا دھڑلے سے اظہار کرتا ہے اور ایسے جاندار انداز میں کرتا ہے کہ ایکسینو فینز، پیرامینائیڈز اور زینو جیسے فلاسفر اس پر کام کرتے رہے یا یوں کہیے اس کا اثر زائل کرنے کی کوشش کرتے رہے. میں نے اوڈیسی کو ناول کی طرح پڑا پے اور مجال ہے کہ ہومر آرام کیلیے بھی وقت دے. میری خوش قسمتی کہ مجھے سلیم الحمٰن صاحب والا ترجمہ ملا اور مزہ آگیا. سلیم صاحب والے ترجمے کے آخر میں مختلف لوگوں کے ریویو لکھے تھے جن میں سے ایک شاید کچھ یوں تھا کہ اوڈیسی سے اردو والے نا آشنا تھے پھر سلیم الرحمٰن صاحب نے اس کاترجمہ کرڈالا-