چاند.(نظم).حامد رمضان
یہ چاند ہی کا ہے ظرف کہ جو
بھڑکتے سورج کی تپتی کرنوں
میں لاکھوں صدیوں سے جل رہا ہے
پر اس کے بدلے بلاتفرقِ جان و بے جاں
ہوں تھل کے ٹیلے یا کوہِ فرہاد
عرب کے صحرا یا جھنگ کا بیلہ
زمین زادوں پہ اک طلسمی رومانوی چاندنی
کو ہر دم لٹا رہا ہے
محب و محبوب و بلبل و گل
سبھی کے دل کو لبھا رہا ہے
سحر میں جس کے
سمندروں کے تٹوں پہ لہریں
وصالِ یاراں کی خواہشیں لے
مچل رہی ہیں
اور ایک ناسٹلجیا کا مارا
کہ یاد ماضی میں جلنے والا
طلاطم انگیز چاندنی میں
جنوں میں جانے کیا لکھ رہا ہے؟
یہ چاند ہی کا ہے ظرف کہ جو
بذاتِ خود جل رہا ہے
لیکن زمانے بھر کو جلِا رہا ہے