اتفاق کیا بلا ہے ؟
یہاں ہم اس اتفاق کی بات نہیں کر رہے جس میں برکت کی وعید دی گئی ہے ، بلکہ وہ اتفاق جس کے ظہور پر “کیا حسین اتفاق ہے” یا پھر “عجیب اتفاق ہے ” جیسے جملے سننے کو ملتے ہیں ، انگریزی میں اسے coincidence کہیں گے ۔ اتفاق کے اظہاریئے میں اہم ترین چیز علت و معلول کی غیر موجودگی ہے۔ اگر علت و معلول( cause and effect) کا عنصر موجود ہے تو یہ اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ ہے، ترتیب ہے، متوقع نتیجہ ہے ۔
یہ چیز انسان کیلئے ہمیشہ پراسرار رہی کہ ان وارداتوں کے پیچھے کیا عوامل ہیں جو علت و معلول سے بالکل عاری ہیں، بعض اوقات کسی چیز کی خواہش کی جائے اور وہ فورآ سامنے ظاہر ہوجائے، کئی برس پہلے کا کوئی واقعہ ہوبہو دوبارہ آنکھوں کے سامنے سے گزرے،( deja Vu کے مظاہر بھی اسی اتفاق سے جڑے ہیں) ، گاہے بلاوجہ اس چیز سے ٹکراؤ ہوتا رہے جس سے آپ بچنا چاہ رہے ہیں، دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کتنے سال سے فلاں ہم جماعت سے رابطہ نہیں سکا اور اسی وقت وہ ہم جماعت سامنے آجائے یا اس کی کال آجائے۔، کسی غیر موسمی اور نادر غذا کا دل کیا، گھر آئے تو وہی ڈش آپ کی منتظر تھی۔
یہ وہ معاملات ہیں جن کے ساتھ ہم میں سے ہر شخص کا واسطہ پڑتا رہتا ہے، قدیم زمانوں میں اسے خالص قلبی یا روحانی واردات سمجھا جاتا ، ایسے میں اس واردات پہ تحقیق کرنا اسے آلودہ کرنے کے مترادف تھا جس سے ہمیشہ گریز برتا گیا، عقل و منطق کا دور آیا تو ان مظاہر پر حادثہ، اتفاق ، coincidence , by chance وغیرہ جیسی اصطلاحات کا پردہ چڑھا دیا گیا ، کیونکہ اس میں علت و معلول کا کہیں کوئی دخل ثابت نہ ہوتا تھا، معاملہ بظاہر دفن ہو رہا لیکن انسانی شعور میں تشنگی پھر بھی باقی تھی۔
یہ یکم اپریل 1950 ء کا دن ہے، کارل ژونگ ایک ہوٹل کے کمرے میں کئی دنوں سے قیام پزیر ہیں، آج وہ اپنی کتاب Aion: Researches into the phenomenology of self کا آخری پیراگراف لکھ رہے۔ اس کتاب میں وہ عیسائیت کی اساطیری علامات پہ تفصیل سے بحث کرتے ہیں، ان علامات کی اہمیت اور انسانی نفسیات پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں، ان کے مطابق ہر دو ہزار سال بعد انسانوں کا اجتماعی لاشعور کروٹ بدلتا ہے اور اس پہلو کو سامنے لاتا ہے جو دو ہزار سال تک اس قدر روشن نہ تھا، ان کے نزدیک ان پہلوؤں کی تعداد بارہ ہے جو بدلتے رہتے ہیں ، یہ تعداد انہوں نے علم نجوم کے بارہ برجوں سے اخذ کی، ہر نیا پہلو ایک برج کی خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے، جنابِ مسیح کی پیدائش کو وہ اجتماعی لاشعور کے کروٹ بدلنے کا سال لکھتے ہیں اور عیسائیت کو برج حوت یعنی، مچھلی ، سے تعبیر کرتے ہیں۔( اگر ان کی بات درست ہے تو پھر ہمیں جان لینا چاہئے کہ اس صدی کے آغاز سے انسانوں کا اجتماعی لاشعور کروٹ بدل چکا ہے کیونکہ جنابِ مسیح کی پیدائش کو دو ہزار سال مکمل ہو چکے ہیں، شاید اسی لئے پچھلی صدی کے لوگوں کو سروائیول میں مشکلات کا سامنا ہے)۔
عیسائیت کو مچھلی اور اسی مچھلی کی علامتی توجیہات پر اپنی بات مکمل کرتے ہوئے وہ باہر تازہ ہوا میں سیر کو نکل کھڑے ہوئے، سامنے سمندر تھا جس کے کنارے وہ چہل قدمی کر رہے ہیں، اچانک ایک زوردار لہر ایک فٹ سے بڑے حجم کی مچھلی کو سمندر سے باہر، کارل ژونگ کے قدموں میں ، پھینکتی ہے ۔ یہ دیکھ کر وہ مسکرائے اور، کیسا دلچسپ اتفاق ہے، کہتے ہوئے آگے کو چل دیئے۔
سیر ختم کرنے کے بعد وہ واپس ہوٹل آتے ہیں تو ہوٹل کا مالک بڑے ہال کی دیوار پر کینوس بدل رہا ہے، اس نئے پردے پر جھیل کی تصویر بنی ہے جس کے شفاف پانی سے مچھلی باہر اچھل کر اٹکھیلیاں کھیل رہی ہے، یہاں انہیں کچھ حیرانی ہوئی، اس بار وہ مسکرائے نہیں، تصویر کو بغور دیکھنے کے بعد وہ سیدھے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوئے، ریسیپشن پہ موجود خاتون نے انہیں بتایا کہ ڈاکیا آپ کے نام کا یہ خط دے کر گیا ہے، کمرے میں پہنچ کر انہوں نے خط کھولا ، یہ ان کی ایک مریضہ کا رقعہ تھا جو ان کے زیر علاج تھیں، مریضہ نے خط میں سوال پوچھا کہ میں گزشتہ کئی دنوں سے خواب میں مچھلیاں دیکھ رہی ہوں، اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
یہاں کارل ژونگ کی حیرانی اب پریشانی میں بدل گئی، ڈاکٹر کو باقاعدہ سگریٹ سلگانا پڑگیا ۔
ایسے اتفاقات نے انہیں سوچنے پر مجبور کیا کہ چاہے یہ اتفاقات علت و معلول سے نہ بھی جڑے ہوں لیکن کہیں کسی مقصد سے ضرور جڑے ہیں ، وہ مقصد جو کسی اجتماعی ہم آہنگی کا پتہ دیتا ہے۔ ان کے نزدیک کچھ واقعات زمان ، مکان اور علت، ان تینوں محوروں، سے پرے کے ہوتے ہیں جن کی منطقی وضاحت ممکن نہیں، یہاں وہ کائنات کے چوتھے محور کا تصور دے رہے ہیں۔
ایسا نہیں کہ اس سمت غور و فکر کرنے والے وہ پہلے آدمی تھے، ان سے قبل بے شمار نام تاریخ میں گنوائے جا سکتے ہیں جو صدیوں تک ان مظاہر کی گہرائی کو ناپتے رہے، لیکن بیسویں صدی کے وسط تک دنیا چونکہ مکمل طور پر سائنس، مادیت اور ثبوت پہ آ چکی تھی تو پرانے نظریات کو کوئی خاطر میں لانے کو تیار نہ تھا، اب یہاں جب ایک پروفیشنل اور منجھے ہوئے نفسیات دان میدان میں اترے ہیں جو اسی سسٹم کے سند یافتہ ہیں تو انہیں رد کرنا آسان نہ تھا۔
یہیں سے ان مظاہر کی طرف دوبارہ توجہ گئی کہ انسان کے حواسِ خمسہ، تخیل ، جذبات اور چھٹی حس سے باہر بھی کچھ موجود ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کامل حقیقت، being, اپنے اندر متصل ہے، بغیر کسی وقفے کے معاملات چل رہے ہیں کیونکہ حقیقت کسی subjectivity کا تصور نہیں رکھتی، اگر شیر ہرن پہ حملہ کر رہا ہے تو یہ ہمارا موضوعی تصور ہے، ورنہ حقیقت کے نزدیک نہ تو شیر سبجیکٹ ہے اور نہ ہی ہرن آبجیکٹ ہے، یہ دونوں ایک متصل تسلسل کا، کائنات کا حصہ ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سمندر کی بڑی لہر کسی چھوٹی لہر کو ہڑپ رہی ہے، یہ صرف ہماری سمجھ بوجھ میں ہڑپنا کہلائے گا، سمندر کیلئے یہ ایک تسلسل کا نام ہے، کیونکہ دونوں لہریں اسی ایک ہی سمندر کا جزو ہیں ۔
زبان اور منطق کے آجانے سے انسان اس تسلسل سے جدا ہو رہا ، نتیجے میں ،مونجھ، اور خوف اس کے بنیادی وصف ٹھہرے، مونجھ اس تسلسل سے کٹ جانے کی اور خوف اس موت کا جس کا اب یہ ادراک رکھتا ہے۔ نتیجے میں انسان کو اسی تسلسل سے جوڑنے کیلیے مذہب نمودار ہوا ، اخروی زندگی کا تصور اسی حقیقت کے ساتھ ابدی تعلق کا نام ہے ۔ آرٹ بھی خود کو حقیقت سے اسی تسلسل سے جوڑنے کی کوشش ہے۔
جسے ہم اتفاق کہہ رہے ہوتے ہیں وہ اس متصل حقیقت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے، چونکہ ہم صرف ٹکڑے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اسی لئے ہمیں یہ اتفاق لگتا ہے، لیکن دراصل یہ اتفاق نہیں بلکہ کسی تسلسل کی کڑی ہے ، وہ تسلسل جس کی باقی کڑیاں ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ۔ ہم چونکہ موضوعیت کی کرسی پہ براجمان ہیں اس لئے ہمیں تسلسل کی بجائے کڑی نظر آتی ہے، جادو کا فلسفہ یہی ہے کہ جادوگر آپ کو ایک موضوعیت سے گھسیٹ کر دوسری موضوعیت میں لے جاتا ہے، کیونکہ وہ موضوعیت کا اپنا ایک علیحدہ لوگس تخلیق کرتا ہے، اس لوگس سے مختلف جس پہ آپ رواں ہیں۔
کائنات کے تمام افعال اور معاملات ایک دوسرے سے اس قدر جڑے ہیں ، گویا کہ گتھم گتھا ہیں، یہ صرف حضرتِ انسان ہے جسے یہ معاملات علیحدہ دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ہم موضوعیت کی کرسی پہ بیٹھے یہ سب دیکھ رہے ہیں، کتنے ہی ایسے انسان ہیں جو ایک سی قسمت لے کر پیدا ہوتے ہیں، ان کی پسند ناپسند ، اسلوبِ فکر ، ترجیحات ایک سی ہوتی ہیں کیونکہ وہ کائناتی حقیقت کی کسی ایک سطح پر کھڑے ہوتے ہیں، ایک جیسے دماغ بھی موجود ہیں جو ایک جیسے آئیڈیاز سے ٹکراتے ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے ذہن میں کوئی نیا آئیڈیا، نئی فکر نمودار ہوتو اسے فوراً عملی جامہ پہنانا چاہئے کیونکہ خیال چوری بھی ہو سکتا ہے،،، گویا کہ یہ دریا ہے جو تسلسل سے بہہ رہا ہے، پیاس محسوس ہوتو بجھا لینی چاہئے وگرنہ آپ کے حصے کے وہ گھونٹ کسی دوسرے حلق میں بھی جا سکتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں کامل ہم آہنگی کو اس رومانوی دعوے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب اچانک کوئی بھولا بسرا شخص آپ کے ذہن میں آ جائے تو کچھ بعید نہیں کہ وہ شخص بھی آپ کو یاد کر رہا ہے۔ اپنے گرد موجود نشانیوں کو، واقعات کو ، اپنے خوابوں کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہر واقعہ، ہر احساس کوئی اشارہ لئے ہوئے ہے۔
کامل حقیقت کے نزدیک اتفاق نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔